روچڈیل کی سنہری مسجد اور راشن برائے فروخت


برطانوی ادارے چیریٹی کمیشن کی طرف سے مساجد کے بارے میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں 90 فیصد سے زیادہ مساجد بچوں کے لئے تعلیم کی سہولیات رکھتی ہیں اور 80 فیصد سے زیادہ مساجد برطانیہ میں غربت کے خاتمہ، سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ گولڈن یا سنہری مسجد برطانیہ کے شہر روچڈیل میں 1960 میں تعمیر کی گئی۔ مسجد میں تقریبا 700 لوگوں کی بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

گراؤنڈ فلور پر ایک کثیر المقاصد ہال تعمیر کیا گیا ہے جس کو نماز، کلاس رومز، ریفریشمنٹ اور یوتھ کلب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عمارت کو تمام ضروری ڈیجیٹل آلات جیسے پروجیکٹر، پروجیکٹ اسکرینز، ٹی وی اور وائی فائی وغیرہ سے آراستہ کیا گیا ہے۔ مسجد کی لائبریری میں اردو، عربی اور انگلش کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔

سنہری مسجد کی طرف سے شادی، نکاح اور جنازہ جیسی خدمات کے علاوہ فیملی کونسلنگ کی سروسز بھی بذریعہ امام مسجد مہیا کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں مسجد کمیونٹی سروسز کے سلسلے میں بلا تشخیص رنگ و مذہب بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ مسجد کی انتظامیہ مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر طور پر معاشرتی اتحاد، صحت اور تندرستی کو فروغ دینے کے لئے بھی کام کرتی ہے۔ اور ابھی حال ہی میں نیشنل ہیلتھ سروسزاور مقامی کونسل کے ساتھ مل کر ذہنی صحت سے متعلق آگاہی سیشن کا انعقاد کیا گیا ہے۔

مسجد کے زیر انتظام، نوجوانوں کو کھیلوں اور سماجی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک یوتھ کلب قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد تعلیم و تربیت، روزگار کے مواقع، تفریح اور معاشرتی فلاح و بہبود ہیں۔ اس طرح سنہری مسجد روچڈیل میں موجود تمام شہریوں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص ایک سماجی و فلاحی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستان میں کچھ سال پہلے تک جب ذرائع نقل و حمل اتنے ترقی یافتہ اور تیز تر نہیں تھے تو دوران سفر اکثر اوقات مسافروں کو کسی شہر یا گاؤں میں پڑاؤ کرنا پڑتا تھا۔ ایسی صورت حال میں بلا جھجک مسجد کا انتحاب کیا جاتا تھا۔ مسجد یا مسجد سے ملحقہ جگہ پر نہ صرف ان کے سونے کا انتظام ہوتا تھا بلکہ امام صاحب کی وساطت سے ان کے کھانے کا انتظام بھی اہل محلہ کے ذمے ہوتا تھا۔ اسی طرح علاقہ یا محلہ میں کسی تنازع کی صورت میں مسجد میں اہل محلہ کا اکٹھ ہوتا تھا اور باہمی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا تھا۔ گویا مسجد کی حیثیت عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ ایک کمیونٹی سنٹر کی تھی جہاں کمیونٹی یعنی اہل محلہ کے باہمی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر، باہمی میل جول اور درس و تدریس جیسے معاملات بھی دیکھے جاتے تھے۔

تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہجرت مدینہ کے فوراً بعد مسجد نبوی کا قیام عمل میں آیا اور آنے والے دنوں میں مسجد نبوی کو ریاست مدینہ کے معاشرتی و سماجی نظام میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ جہاں مسجد نبوی مسلمانوں کی مدینہ میں پہلی عبادت گاہ ٹھہری وہیں تمام ریاستی امور کے سلسلے میں مسجد نبوی کو بطور عدالت، یونیورسٹی، فارن آفس اور انتظامیہ آفس استعمال کیا گیا۔ ہجرت مدینہ کے بعد بہت سارے مسلمان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ تشریف لائے وہ اپنا مال و اسباب مکہ میں چھوڑ آئے تھے لہذا ان صحابہ کرام کی رہائش کا بندوبست بھی مسجد نبوی میں کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ ان میں سے ایک تھے۔ بعد ازاں اسلام کی ترویج اور مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ مساجد بطور کمیونٹی سنٹر کی روایت بھی مسلم دنیا میں پھیلی اور مساجد نے جہاں تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا وہی بطور کمیونٹی سنٹر بھی معاشرتی فلاح و بہبود میں حصہ ڈالا۔

حالیہ کرونا وبا کے تناظر میں پاکستان میں سوشل ویلفئیر کا کام بہت بڑے پیمانے پر شروع کر دیا گیا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف رفاعی تنظیمیں اور انفرادی و اجتماعی حیثیت میں ہر شخص اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ لیکن وبا کے ان مشکل دنوں میں بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو فراڈ و بے ایمانی کر کے امداد کو اصل حقداران تک پہنچنے میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ایسا ہی ایک خاندان مختلف رفاہی تنظیموں کی طرف سے حاصل کردہ راشن کو بیچنے کے لئے مارکیٹ پہنچا ہوتا ہے اور دکاندار سے راشن کے بدلے صابن، شیمپو اور نقد رقم کا طلب گار ہے۔

دکاندار کے استفسار پر موصوف بتاتے ہیں کہ ان کے پاس چار سے پانچ من مزید راشن موجود ہے جو وہ بیچنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے سوشل ویلفئیر اداروں کا کوئی مربوط نظام موجود نہ ہے اور نہ ہی مستحقین کا کوئی مستند ڈیٹا بیس موجود ہے۔ اس وجہ سے امداد کا ایک بڑا حصہ پیشہ ور لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور مستحقین اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں مساجد کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند ڈیٹا موجود نہ ہے۔ لیکن ہر قصبہ اور محلے میں مسجد موجود ہے۔ اور کسی بھی آگاہی پیغام کے سلسلے کو اگر فوری طور پر ملک کے کونے کونے تک پہنچانا مقصود ہو تو آج کے کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی مساجد کا سہارا لیا جاتا ہے۔

اگرچہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ٹیکنالوجی میں جدت آئی ہیں وہاں سماجی و معاشرتی ڈھانچے میں بھی واضح تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔جس وجہ سے مسجد اور امام کا کردار سماجی لحاظ سے کافی کم ہو گیا ہے۔ لیکن بطور ادارہ آج بھی مسجد اور امام مسجد کا اثر وسوخ مستند ہے۔ کیونکہ آج بھی مسلمانوں کے لئے مسجد اگر پہلی ترجیح نہیں ہے تو گھر اور آفس کے ساتھ دوسری یا تیسری ترجیح ضرور ہے اور ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے مسجد کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ اگر مساجد کا نظام جدید خطوط پر استوار کرکے کسی مرکزی نطام سے منسلک کر دیا جائے تو معاشرتی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفئیر کا ایک مربوط اور موثر نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

جس میں ہر فرد تک رسائی حاصل کرکے اصل ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے اور متعلقہ کمیونٹی سے بہترین افراد کا چناؤ کر کے ایک بہتر افرادی قوت برائے سماجی خدمات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف کسی ایمرجنسی کی صورت میں پر علاقہ میں فی الفورمتاثرین تک امداد مہیا کی جاسکتی ہے بلکہ یہ ایک مستقل نظام کی شکل میں بھی نافذ کیا جا سکتا ہے اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کے تناظر میں بہترین کام لیے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments