کیا کرونا سماج کے ”رانگ نمبرز“ بند کر دے گا؟


سوچنے والے کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں انسان کو سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصان دوسری عالمی جنگ میں اٹھانا پڑا، جس میں ساری عالمی قوتوں نے اپنے دشمنوں کے خلاف سب سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ بھی کیا، جو اس وقت انسانی طاقت کی انتہا تھی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کا حملہ اس کا کلائمکس تھا، جو پھر کبھی دنیا میں دہرایا نہیں جا سکا۔ کام کی بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انسان کو سب سے زیادہ فائدہ بھی دوسری عالمی جنگ کے مرہون منت ملا۔

یہ دوسری عالمی جنگ ہی تھی جس نے انسان کو نوآبادیاتی نظام اور نسلی غلامی سے آزادی دلائی۔ اقوام کو قومیت اور دھرتی کا استعارا ملا، لشکر لے کر دوسری قوموں پر حملہ کرنا، ممالک پر قبضے کرنا، قوموں کو غلام بنانا اور ریاستوں کو اپنے قبضے میں لاکر سلطنت اور بادشاہتیں قائم کرنا بند ہوگیا۔ اقوام متحدہ بن گیا قومیت کی بنیاد پر ممالک آزاد ہوئے، سرحدیں تسلیم کی گئیں۔ ایک دوسرے سے اختلافات اور دشمنیاں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں اور خودمختاری کو تسلیم کیا گیا۔ یہ وہ کام تھا جو انسانی تاریخ میں کوئی آسمانی یا زمینی مذہب بھی نہیں کر پایا تھا۔ انسانی شعور کو درست سمت میں لایا گیا جاپان جیسا جھگڑالو ملک علم آگہی اور انڈسٹری کی جانب آیا تو اس نے ترقی کے میدان میں انقلاب برپا کردیا۔ آفیم زدہ چینی قوم کی نہیں ترقی اس کا بہتریں مثال ہے۔

اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ”دنیا پر دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ اثرات کرونا کے محسوس کیے جائیں گے، بھوک اور مہنگائی بڑھے گی، مگر آنے والی نہیں تبدیلی عجیب ہوگی۔ “

سوچنے والے کہتے ہیں کہ ”جب کرونا ختم ہوگا تب تک بہت کچھ ختم ہو چکا ہوگا، کئی نہیں چیزیں اور باتیں بھی جنم لی چکی ہوں گی۔ “ اس وقت یہ باتیں تمام پڑھنے اور دیکھنے والوں تک پہنچ چکی ہیں کہ فرانس کی شاہراہوں پر گاڑیاں نہ آنے کہ وجہ سے گھاس آگ آئی ہے، جہاز اور دھواں دینے والی فیکٹریز بند ہونے سے اوزون کی تہہ خود مرمت ہو رہی ہے جو ممکن ہی نہ تھا۔ سمندر کی مچھلیاں جو جالوں اور بحری جہازوں سے تنگ آ کر تہہ میں چھپ گئی تھیں اب چودھویں کا چاند دیکھنے کے لئے سطح سمندر پر آگئی ہیں۔ ان مچھلیوں کو چاند کا دیدار کرنے کے لئے ایک سو سال کا انتظار کرنا پڑا اور شاید ایک سو نسلوں تک بھی۔ کئی ساحلوں پر ڈولفنز نے آکر پہلی بار جشن منایا ہے۔ اسلام آباد کے شاہراہوں پر اصلی والے شیر اور سور نکل کر چہل قدمی کر رہے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے، مطلب انسان نے ان کی زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا۔

یہ بھی بڑی بات اور بڑی تبدیلی ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس سے بھی بڑے فوائد اور ہونے ہیں، جو انسانی سوچ، وہم، گمان، ادراک، عقل اور ایمان سے منسلک ہیں۔

کرونا کا جو اثر تجارت، سفر، مہنگائی، انڈسٹری اور دیگر سماجی مالی اور اقتصادی معاملات پر پڑا ہے اس کی خیر ہے، انسان وہ حساب کتاب کہیں نہ کہیں چکا لے گا۔ مگر انسان کے روحانی معاملات پر پڑنے والے اثرات ابھی ظاہر ہونے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کرونا مذاہب کو بھی کھنگال کر رکھ دے گا، مگر ایک رائے یہ بھی ہے کہ تاریخ میں مذاہب کمزور یا طاقتور تو ہوئے ہیں ختم نہیں ہوئے۔ اس لئے یقین کی حد تک گمان ہے کہ کرونا مذاہب کو ختم نہیں کرے گا بلکہ پاک اور صاف کردیا۔ جس طرح پاکستان میں رات کو دس بجے بے وقت اذان دی جاتے ہے، اسی طرح بھارت میں بھی مندروں میں بے وقت گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں۔ ویٹیکن سٹی میں ہو کا عالم ہے مگر پوپ عبادت کے وقت حاضر ہوجاتے ہیں۔

یہ ہی وہ وقت ہے جب مذاہب اپنی اصلی جگہ پر واپس آکر انسانی دماغ سے وہ توہمات اور بدعتیں نکال دے گا جو ملا، پنڈت اور پادریوں نے انسان کے دماغ میں بھوسے کی طرح بھر دی ہیں۔ مذاہب کے نام پر سب رانگ نمبر اب بند ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یورپ کا وہ پادری کرونا کی وجہ سے مرچکا جو سمجھتا تھا کہ اسے عبادت سے روکنے کے لئے سازش کی جارہی ہے، بھارت کے کئی پنڈت جو مندر کی دکان بند کرنے پر راضی نہیں تھے اب تھانوں یا ہسپتالوں میں بھرتی کیے جاچکے ہیں، پاکستان میں مسجد کو اپنی مارکیٹ یا قلعہ تصور کرنے والے ملا اپنی سوچ کی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔

حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کو بھی اس لئے بند یا محدود کردیا گیا ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا تھا کہ ایک مومن کی جان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ مگر یہاں مسئلہ کعبہ اور اسلام کا نہیں اس مسجد کا ہے جہاں ان کی حکمرانی ہے۔ وفاقی سرکار نے اس سلسلے میں اہم فیصلہ کیا ہے کہ یہ معاملہ تمام مسالک کے علماء کے ساتھ بیٹھ کر حل کیا جائے گا۔

کراچی میں انسانی حقوق اور بھلائی کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن خلیل چانڈیو کا کہنا ہے کہ ”ہمارے سماج نے دو صدیوں تک لوگوں کو سمجھایا ہے کہ فلاں پیر، پنڈت، بزرگ، سنت اور درگاہ ہی عزت، ذلت، بیٹا اور روزگار دیتا ہے اب ان لوگوں کو کیسے یقین دلائیں کہ ایسا نہیں ہے۔ کرونا کسی مسجد، مندر اور کلیسا کو نہیں دیکھے گا بلکہ خود کو قرنطینہ نہیں کیا تو یہ سب کو وائیٹ واش کر دے گا۔ “ دوسرے طرف لمز یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر اشوک کمار کا خیال ہے کہ کرونا اپنے خاتمے پر انسان کو سمجھا چکا ہوگا کہ اس کائنات میں انسان ہی اصل اور عظیم ہے اور اسی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات ہے۔

کرونا کے خاتمے یا کنٹرول ہوجانے کے بعد انسان جب دوبارہ آپس میں ملے گا تو اس کا آپس میں رشتہ بہت مضبوط ہوچکا ہوگا، ساحلوں پر آئی ڈولفنز کو بھگاتے اور ڈراتے شرمندگی محسوس کرے گا، انسان کا آپس میں انسیت کا رشتہ پروان چڑھے گا، معافی اور درگزر کا مادہ بڑھے گا، غصہ کم ہوگا، احتیاط اور عزت نفس کو تقویت ملے گی۔ انسان اور خدا کے درمیاں رشتہ مضبوط ہوگا، بہت سارے وسیلے اور رانگ نمبرز بند ہوجائیں گے۔ ملا، پنڈت اور پادریوں کی مسلکی دکانیں بند ہوجائیں گیں۔ انسان کو اس معراج پر پہنچنے میں آسانی ہوگی جس کا قدرت نے اس سے وعدہ کیا ہے۔

کیا واقعی ایسے ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر کرونا اگر لوگوں کی جان بخشی کر کے ان مسلکی رانگ نمبرز کو مستقل بند کر دے یا ظاہر ہی کردے تو اس کا انسانیت پر احسان عظیم ہوگا۔ کرونا اگر ہم کو ڈرا دھمکا کر کچھ سمجھانے میں کامیاب ہو گیا تو ہماری نسلیں اس کا احسان یاد رکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments