حاجی صاحب آپ فرشتہ ہیں اہم اعلان



ان دنوں وبا پھیلنے کی وجہ سے سب کچھ بند ہے۔ مگر اللہ کے فضل سے ہمارے دل بڑے ہیں۔ کسی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تو بھی وہ بھوکا نہیں سوئے گا۔ ہم اپنی طرف سے غریبوں میں راشن تقسیم کریں گے۔ ضرورت مند افراد اس نمبر ×××××× پہ رابطہ کریں۔ مصیبت کے اس وقت میں اپنے لوگوں کو اکیلا ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔

اگر کوئی اس کار خیر میں حصہ ڈالنا چاہے تو وہ اس اکاؤنٹ نمبر 1111 میں چندہ جمع کروا سکتا ہے۔ یہ کار خیر ہے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

حاجی صاحب نے اپنی وال پہ سٹیٹس لگا کر بہت سارے دوستوں کو ٹیگ کیا۔ اپنی ڈی پی پر فاقہ زدہ بچوں کی تصویر بھی لگا دی۔ یہی سٹیٹس واٹس اپ پر بھی تھا۔ ایف بی پہ لوگوں کی مدد کا سٹیٹس پڑھ کے دوستوں نے خوب سراہا۔ حاجی صاحب آپ درد دل رکھنے والے انسان ہیں۔ آپ عظیم ہیں، آپ جیسا کوئی نہیں۔ حاجی صاحب کی وال پہ تعریفی کمنٹس ختم ہونے میں نہیں آرہے تھے۔

بس جی میری کیا اوقات یہ تو مالک کا کرم ہے جو اس نیک کام کے لئے مجھے چنا۔ اگر اس وقت ہم صاحب حیثیت لوگ آگے نہیں بڑھیں گے توکون بڑھے گا۔ ان ضرورت مندوں کے سروں پہ ہاتھ رکھنا ہمارا اخلاقی و شرعی فرض ہے۔ ویسے بھی یہ سب ہم نے دوسروں کے لئے نہیں اپنی آخرت سنوارنے کے لئے کرنا ہے۔ حاجی صاحب انکساری کا پیکر بنے جوابی کمنٹس لکھتے۔

اجی صاحب لوگوں میں تو انسانیت ہی نہیں رہی، اس وقت بھی فراڈ کر رہے ہیں، غریبوں کے نام پہ مانگ کر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں، خدا کا خوف ہی نہیں کسی کو۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی دھوکہ دیتے لوگوں کو شرم نہیں آرہی، ایسے لوک انسان نہیں گدھ ہیں۔ میری چندہ دینے والوں سے ہاتھ جوڑ کر دردمندانہ اپیل ہے ایسے جعل سازوں سے ہوشیار رہیں، اور اصل مستحقین تک امداد پہنچانے کے لئے ہمارے دیے گئے صرف۔ ۔ اسی نمبر پر رابطہ کریں۔ ہماری ہیلپ لائن چوبیس گھنٹے کھلی ہے جس پہ کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں۔ حاجی صاحب کی وال پہ روز نیا سٹیٹس لگتا۔

اگر غریبوں کی بھرمار تھی تو مدد کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ اس نیک کام میں ہر کوئی اپنا حصہ ڈالنا چاہتا تھا۔ چندہ دینے والوں کی کالز پہ کالز آرہی تھیں، جسے حاجی صاحب خود اٹینڈ کرتے، شکریہ ادا کرتے، ڈھکے چھپے لفظوں میں مزید تعاون کے لئے بھی اکساتے۔ اجی صاحب میں نے تو بیس لاکھ نکالے تھے اس نیک کام کے لئے ، لیکن جب بانٹنے لگے تو پتہ چلا یہ تو کچھ بھی نہیں، سو مزید رقم عطیے کے لئے نکالی ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا ساتھ رہا تو یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا۔ آگے اللہ مدد کرنے والا ہے۔

البتہ مدد مانگنے والوں کے نمبر والا موبائل انھوں نے اپنے خاص بھروسے والے ملازم کو دے رکھا تھا، جس کو حکم تھا کہ فون سب کے سننے ہیں، مدد پہنچانے کے لئے لوگوں کے ایڈریس بھی لینے ہیں، اور انکار کسی کو بھی نہیں کرنا۔ راشن نہ ملنے کی شکایت آئے تو ”ابھی آپ کا نمبر نہیں آیا“ کہنا کی خاص ہدایت تھی۔

گھر گھر راشن بانٹنے کی افتتاحی تقریب گھر کے وسیع لان میں تھی۔ میڈیا والوں کو بلا کر راشن کے تھیلوں کے ساتھ تصویریں بنوائی گئیں، اور بتایا کہ لسٹ کے نمبر کے حساب سے مرحلہ وار راشن تقسیم ہوگا۔ اخباری نمائندوں کے لئے پر تکلف چائے کا اہتمام تھا۔ جاتے ہوئے انھیں بھی راشن کا ایک ایک تھیلے کاتحفہ پیش کیا گیا، جسے زیادہ تر نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے معذرت کی کہ یہ ہمارا حق نہیں۔ اگلے دن ہر اخبار کی سرخی حاجی صاحب سے متعلق تھی۔ حاجی صاحب فرشتہ ہیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا قائم ہے۔ اور اس جیسی کئی سرخیاں حاجی صاحب کی تصویر کے ساتھ پہلے صفحے پہ لگیں۔

دیکھا میری ترکیب کیسی کامیاب رہی۔ اللہ نے بڑا کرم کیا ہے اپنا تو سارا نقصان پورا ہوگیا، بلکہ ہم اس وقت فائدہ میں جا رہے ہیں۔ خوشگوار موڈ میں کھانا کھاتے ہوئے حاجی صاحب اپنے بیٹے کو بتا رہے تھے کہ ملازم نے آکر بتایا۔ صاحب باہر کوئی مدد مانگنے کو آیا ہے، کہتا ہے شہر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہوں، بچے دو دن سے بھوکے ہیں، ایک تو بھوک کی وجہ سے بیہوش پڑا ہے اگر تھوڑی مدد مل جائے تو۔

تمھیں کتنی بار کہا ہے کہ ایسے واہیات پیغام لے کر میرے پاس نہ آیا کرو۔ سارے کھانے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ حاجی صاحب کو یہ سنتے ہی غصہ آگیا۔

لیکن صاحب وہ پیشہ ور بھکاری نہیں لگ رہا کہ اس کی آنکھیں سوال کرتے وقت جھکی اور بھیگی ہوئیں تھیں، خود بھی بھوک سے نڈھال لگ رہا ہے۔ ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

ارے ڈرامے کرتے ہیں سب، نہیں مرتے یہ بھوک سے، عادت ہوتی ہے انھیں، پہلے کون سا یہ تین وقت کھاتے تھے جو اب نہ ملنے پر شور مچا رہے ہیں۔ اگر دس دن اور بھی انھیں کھانے کو کچھ نہ ملے تو زندہ ہی رہیں گے۔ حاجی صاحب نے حقارت سے کہا۔

لیکن صاحب وہ بیچارہ۔
ہونہہ بڑے دیکھ رکھے ایسے بیچارے۔ اتنا ہی ہمدردی کا بخار چڑھا ہے نا تو تم کر دو اس کی مدد۔ نہیں ہے ان جیسے منگتوں کے لئے میرے پاس کچھ۔ میں تو خود مشکل میں ہوں، تینوں فیکٹریاں بند پڑی ہیں، اس منحوس کرونا کی وجہ سے روز لاکھوں کانقصان ہو رہا ہے۔ بیچارہ لفظ سنتے ہی حاجی صاچب مزید بھڑک اٹھے۔

لیکن صاحب کل ہی تو اخباروالوں کو بلا کر آپ بتا رہے تھے کہ غریبوں کی مدد کریں گے۔ گھر گھر راشن پہنچائیں گے۔ ملازم نے آخری کوشش کرنا چاہی۔

چپ خبردار منہ کھولا تو، تمھارا کیا خیال ہے وہ سب چندہ جو اتنی محنت سے اکٹھا کیا ہے وہ میں ان فقروں میں بانٹ دوں گا۔ ارے اس امداد پہ سب سے پہلا حق یتیم اور ضرورت مندوں کا ہے۔ اور میں تو پچھلے دس سالوں سے یتیم ہوں اور مجھ سے زیادہ ضرورت مند کون ہوگا بھلا جس کا ماہانہ کروڑوں کا نقصان ہو گیا۔ چلو جاؤ ادھر سے اور دوبارو ایسا کوئی پیغام لے کر آئے تو یاد رکھنا تم بھی پھر ایسے ہی کسی گھر کے باہر مانگ رہے ہوگے، میں نہیں رکھوں گا تمھیں۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں سے۔ حاجی صاحب نے ملازم کو سخت لہجے میں وارننگ دے کر جانے کا کہا۔

مجبوری سے جھکے سر کے ساتھ باہر آتے ملازم نے دل ہی دل میں سوال کیا حاجی صاحب کون ہیں آپ کوئی فرشتہ یا۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments