آزادی صحافت اور انسانی ترقی میں کیا رشتہ ہے؟


حکومتیں اخبارات و جرائد سے اکثر نالاں رہتی ہیں۔ خصوصاً مطلق العنان حکمران آزادی صحافت سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ یہ ایک قابل فہم بات بھی ہے اور صحافت کے لیے ایک قابل احترام حقیقت بھی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ یہ پریس کی عظمت کا ایک ثبوت ہے۔ صرف آمر مطلق اور ”جہاں پناہ“ قسم کے حکمران ہی آزادی صحافت سے نفرت نہیں کرتے، جمہوری حکومتیں بھی پریس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ عموماً گلہ یہ کیا جاتا ہے کہ پریس شہریوں کی خلوت میں مداخلت کرتا ہے اور حقائق مسخ کرتا ہے۔

بلاشبہ جب کسی کے خیالات مسخ کیے جائیں تو اسے بہت ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ غلط بات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کا مداوا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میرا ایک ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ کسی جگہ تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ”دنیا کی تہذیبیں ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔ “ بھارت کے ایک نمایاں اخبار میں شائع ہوا کہ امرتاسین کا کہنا ہے کہ ”دنیا کی تہذیبیں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ “ یقینا اس اخبار کے رپرٹر سے صرف ایک لفظ ”نہیں“ چھوٹ گیا۔ لیکن میری بات کا مفہوم یکسر الٹ ہو گیا۔

پریس سے دلبرداشتہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پریس ایک انتہائی طاقتور شعبہ ہے اور اگر ذمہ داری سے کام کرے تو معاشرے میں بہت تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب پریس غفلت یا بدعنوانی کا مظاہرہ کرتا ہے تو معاشرہ صرف اس کے منفی کردار سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اسے مثبت کردار سے محروم بھی ہوتا ہے اور یہ دیکھ کر سماجی انصاف یا معاشرتی اصلاحات کے لیے کام کرنے والے یاسیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف پریس کے ممکنہ فوائد کا ضیاع یا منفی طرز عمل آزادی صحافت کے مخالفین کے کام آتا ہے۔

آزادی صحافت انسانی ترقی کے لیے کیوں ناگزیر ہے؟ میرے خیال میں اس کی کئی وجوہات ہیں جو ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ ان کا الگ الگ جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس طرح یہ اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ آزادی صحافت کے ساتھ معاشروں کے کون کونسے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ جب آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جاتا ہے تو معاشرہ کس چیز سے محروم ہو جاتا ہے اور یہ محرومی کیسی کیسی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ لارڈ نارتھ کلف نے ایک صدی قبل کہا تھا ”خبر میں بے پناہ طاقت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ جبر کی طاقت خبر کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ “

میری رائے میں آزادی صحافت انسانی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کی چار وجوہات ہیں۔

۔ 1           آزادی اظہار فرد کا بنیادی حق ہے اور آزادی صحافت کے بغیر یہ حق پورا نہیں ہو سکتا۔

۔ 2           پریس معلومات کی فراہمی کی خدمت سرانجام دیتا ہے۔ یعنی حقیقت اجاگر کرتا ہے۔ درست حقائق کے بغیر تنقیدی تجزیہ ممکن نہیں ہوتا اور تنقیدی تجزیے کے بغیر انسانی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔

۔ 3           پریس معاشرے کے پسماندہ گروہوں کے مسائل معاشرے کے سامنے لاتا ہے۔ اس طرح وہ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں ایک طاقتور عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔

۔ 4           پریس معاشرتی اقدار اور معیارات کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی پریس معاشرے کو اخلاقی قدروں کے انتشار سے محفوظ رکھتا ہے۔

میں نے اپنی کتاب ”ترقی بطور آزادی“ میں لکھا تھا کہ انسانی ترقی کا تجزیہ کرتے ہوئے لامحالہ شہریوں کے معیار زندگی اور انھیں حاصل آزادیوں کو پیمانہ بنانا پڑتا ہے۔ ترقی صرف مادی اشیا اور اعداد و شمار (مثلاً مجموعی قومی پیداوار) سے نہیں ماپی جا سکتی۔

انسانی ترقی کا بنیادی اشاریہ یہ ہے کہ کیا فرد اپنی خواہش کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے؟ اس طرح آزادی ترقی کا جذو لاینفک قرار پاتی ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی آزادیوں کو ”بالواسطہ نتائج“ کی مد میں رکھنے کی بجائے انھیں ترقی کی لازمی شرائط کے طور پر دیکھا جائے۔ آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی عدم موجودگی انسانی ترقی کی جڑیں کھوکھلی کر دیتی ہے۔ یعنی اگر کوئی مطلق العنان حکومت ”مجموعی قومی پیداوار“ کی اونچی شرح کی بنیاد پر معاشی ترقی کے دعوے کر رہی ہو تو یہ دعوے اپنی سچائی کے باوجود محض ریت کے گھروندے ہوتے ہیں۔ ذرا سی باوتند انھیں بکھیر دیتی ہے۔ کیونکہ اس کے نیچے حقوق اور آزادیوں کی ٹھوس بنیادیں نہیں ہوتیں۔

پریس کا معلومات کی فراہمی کا فریضہ بھی کم اہم نہیں۔ پریس نہ صرف نئی تحقیقات، ایجادات اور خیالات سے آگاہ کرتا ہے بلکہ وہ فرد کو اس دنیا کی تفہیم میں مدد بھی دیتا ہے جس کا وہ باسی ہے، جو اس پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتی ہے اور جس پر وہ ہمہ وقت اثر انداز ہوتا ہے۔ دوسری طرف تحقیقاتی رپورٹنگ ایسے حقائق کا منظر عام پر لاتی ہے جو بصورت دیگر مخفی رہتے ہیں اور معاشرتی اور ریاستی انحطاط کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔

پریس کا ”تحفظاتی کردار“ بھی اسی قدر اہم ہے۔ جب پریس عوام کے مسائل اور مطالبات، خصوصاً پسماندہ گروہوں کی محرومیاں، اجاگر کرتا ہے تو درحققیت وہ ان کے انسانی اور ترقیاتی حقوق کا تحفظ کر رہا ہوتا ہے۔ معلومات کا فوری حصول عوام کو طاقت دیتا ہے۔ ورنہ عوام جبر اور استحصال تلے پستے رہتے ہیں اور حقائق سے لاعلمی انھیں مسائل کے مجموعی تناظر سے محروم رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر 1956۔ 61 میں چین میں پڑنے والے خوفناک قحط کی تفصیلات پڑھیے۔ اس قحط میں تین برسوں میں تقریباً تین کروڑ چینی باشندے ہلاک ہوئے۔

یہ درست ہے کہ اس وقت کی چینی حکومت اپنے ملک سے بھوک کا خاتمہ کرنے میں مخلص تھی۔ لیکن تمام تر اخلاص کے باوجود وہ اپنی غلط پالیسیوں ( ”عظیم پیش قدمی“ سے متعلق فیصلے ) کا بروقت ازالہ نہ کر سکی۔ اگر چین میں طاقتور حزب اختلاف موجود ہوتی اور آزاد پریس اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا تو چینی حکومت ان غلطیوں کا ازالہ کر سکتی تھی۔ درحقیقت چینی حکومت کے پاس معلومات کی کمی تھی۔ وہ سرکاری معلومات کے ذریعے یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھی کہ اس کا ”عظیم پیش قدمی“ کا منصوبہ کتنی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

اس زمانے کے چین میں نہ تو آزادی صحافت تھی اور نہ ہی عوام کے تبادلہ خیال کے دیگر ذرائع تھے۔ ہر ضلع کے حکام کو پتہ چلا کہ ان کا ضلع زرعی پیداوار کے طے کردہ ہدف میں ناکام ہو گیا ہے۔ چونکہ دیگر ضلعوں سے ”شاندار کامیابیوں“ کی رپورٹیں آ رہی تھیں لہذا اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کر کے غلط رپورٹیں بھیجنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ یہ سلسلہ پھیلتا گیا۔ مرکزی حکومت کو پہنچنے والی رپورٹوں کے مطابق ملک میں اناج ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔ درحقیقت چین کی مرکزی حکومت کے تخمینوں سے اناج کی اصل مقدار 100 ملین میٹرک ٹن کم تھی۔ نتیجتاً تین کروڑ چینی ہلاک ہو گئے۔

آزادی صحافت پر قدغن حکومت خود حکومت کے پیروں کی زنجیریں جاتی ہے۔ معلومات کے آزادانہ بہاؤ پر پابندی صرف شہریوں کو اندھیرے میں نہیں رکھتی، بلکہ خود حکومت کی آنکھوں کی روشنی بھی چھین لیتی ہے۔

آزاد صحافت اپنے مزاحمتی روپ میں حکومت کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح کے لیے اقدامات کرے۔ اگر حکومت کوپریس کی تنقید کا خطرہ ہو یا انتخابات کے وقت پریس کی حمایت کی خواہش ہو تو وہ لامحالہ عوام کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ یہ کوئی بہت ناقابل فہم بات نہیں کہ آج تک کسی جمہوری ملک میں، جہاں صحافت نسبتاً آزاد ہو، قحط نہیں پڑا۔ مذکورہ بالا چینی قحط میں حکومت صرف اسی وجہ سے ناکام نہیں ہوئی تھی کہ اس کے پاس درست معلومات نہیں تھیں، اس کی اب وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں کو بحران کی حقیقی شدت اور ہلاکتوں کی اصل تعداد سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ کوئی اخبار حکومت پر تنقید کرنے کا مجاز نہیں تھا۔

حالیہ انسانی تاریخ میں جو بڑے بڑے قحط پڑے ان کے پس منظر میں یہی ایک وجہ دکھائی دیتی ہے۔ 1930 ءکی دہائی میں سوویت روس میں پڑنے والے قحط ہوں، 1970 کی دہائی میں کمبوڈیا میں پڑنے والے قحط ہوں، گزشتہ تین دہائیوں میں افریقہ کے فوجی آمروں کے دور میں پڑنے والے قحط ہوں یا سامراجی دور میں استبدادی طاقتوں کے زیر نگین ممالک میں قحط سے ہونے والی ہلاکتیں ہوں، جمہوریت اور آزادی صحافت کی غیر موجودگی ہر جگہ نظر آتی ہے۔

برصغیر کی تاریخ میں 1943 ء کا بنگال کا قحط ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں نے اپنے بچپن میں اس قحط کی ہولناکی کا مشاہدہ کیا۔ یہ قحط نہ صرف جمہوریت کی کمی کا شاخسانہ تھا بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی ذرائع ابلاغ کو حقائق شائع کرنے اور حکومت پر تنقید کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ بنگال کا بدترین انسانی المیہ حکمرانوں کی نظر میں اس وقت قابل توجہ ٹھہرا۔ جب کلکتہ میں شائع ہونے والے ایک اخبار ”دی سٹیٹس مین“ کے جرات مند مدیر اٹین سٹیفن نے اعداد و شمار کی مدد سے صورتحال واضح کی اور 16۔ 14 اکتوبر 1943 ءکو انتہائی چبھتے ہوئے اداریے لکھے۔ اس کے بعد گورنر بنگال نے لندن میں وزیر ہند کو خطوط لکھے اور صورت حال کی سنگینی کا اعتراف کیا۔ ان خطوط کے بعد برطانوی پارلیمنٹ میں ہنگامہ خیز اجلاس ہوئے اور آخر کار اگلے ماہ امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت قحط ختم ہو چکا تھا اور لاکھوں بنگالی سسک سسک کر مر چکے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments