ابھی خود کشی کی ضرورت نہیں ہے



بعض لوگ ہر وقت خود کشی کے خیالات میں مبتلا رہتے ہیں۔ ذرا زندگی میں اونچ نیچ ہوئی ہوئی تو سنکھیا ڈھونڈنے لگے تاکہ اسے کھا کر ہمیشہ کی نیند سو جائیں۔ کبھی کسی عمارت سے چھلانگ مارنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ گھر کے قریب دریا ہو تو وہاں جا کر سوچتے رہے کہ اس میں چھلانگ مار کر تمام دکھوں سے آزاد ہو جائیں۔ اسے Suicidal Ideationکہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہم قومی طور پر اسی مرض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ چند سال ہم سارے نظام کو پنکھے سے لٹکا کر خود کشی کرانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔

جب سے کورونا کی وبا پاکستان میں پھیلنی شروع ہوئی ہے پاکستان میں کچھ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور کھلے تھے، کچھ کے آؤٹ ڈور جزوی طور پر کھلے تھے اور کچھ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور مکمل طور پر بند تھے۔ اچانک یہ خبر شائع ہوئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے حکم فرمایا ہے کہ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور کھول دیے جائیں۔ اور اس حکم کی پیروی میں پنجاب ہیلتھ کمیشن نے حکم دیا کہ تمام پبلک اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور کھول دیے جائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آؤٹ ڈور ہمیشہ کے لئے تو بند نہیں رہ سکتے۔ لیکن مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ حکم صوبائی حکومتوں کی طرف سے جاری ہونا چاہیے تھا۔ مکمل جائزے کی ضرورت کس لئے تھی؟ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر ہسپتالوں میں معمول کے مریضوں کی تعداد کم تھی۔ یہ حساب لگانا ضروری تھا کہ اس وقت سارے ہسپتالوں کے تمام آؤٹ ڈور کھولنے کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔ جیسا کہ بعد میں سپریم کورٹ کی کارروائی میں بھی ذکر کیا گیا کہ کام کرنے والے بہت سے ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان مہیا نہیں ہو سکا۔ اس وجہ سے آؤٹ ڈور کے شعبوں کو اس طرح اچانک کھول دینے سے وبا زیادہ تیزی سے پھیلنے اک امکان بھی ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی ماہرین سے تفصیلی مشورہ کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر سکتی تھیں۔

ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ سپریم کورٹ نے کورونا کی وبا پر از خود نوٹس لے کر 13 اپریل کو کارروائی شروع کر دی گئی۔ قابل احترام سپریم کورٹ نے کابینہ کی کارکردگی اور اہلیت کو غیر تسلی بخش قرار دیا کیونکہ ملک میں کورونا کی وبا سے صحیح طریق پر نہیں نمٹا گیا۔ اور خاص طور پر ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ اس وبا کا مقابلہ صحیح طریق پر کیا جا رہا ہے کہ نہیں؟ یہ ایک سائنسی اور پیشہ وارانہ سوال ہے۔ معتدی امراض کے ماہر ڈاکٹر، وائرولوجسٹ، پبلک ہیلتھ کے ماہرین اور ماہرین وبائیات (Epidiologists) مل کر تجزیہ کریں تو ہی کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ سپریم کورٹ میں چند جج صاحبان، وکلاء یا سرکاری افسران کسی رائے پر کس طرح پہنچ سکتے ہیں؟

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ ان علاقوں میں دریافت ہونے والے کورونا کے مریضوں کے نام بتا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایڈووکیٹ جنرل کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کے مریضوں کے نام رٹ کر عدالت میں آئے۔ چنانچہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب اس امتحان میں فیل ہو گئے۔ میری گزارش یہ ہے کہ پورے صوبے کے کورونا کے مریضوں کے نام تو ایک طرف رہا، آپ دنیا کے کسی اچھے سے اچھے سپیشلسٹ سے بات کر کے دیکھ لیں۔ ان سے دریافت کریں کہ کیا آپ اپنے تحت زیر علاج سب مریضوں کے نام آپ کو منہ زبانی یاد ہیں۔ یقین کریں وہ شاید ہی چند نام بتا سکیں۔

یہ تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرے اور یہ درست ہے کہ کابینہ بھی جوابدہ ہوتی ہے۔ لیکن آئین کی رو سے کس کو جوابدہ ہوتی ہے؟ آئین کے آرٹیکل 91 کی رو سے پاکستان کی کابینہ ملک کی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ تمام ادارے اپنی توجہ اس وبا پر مرکوز رکھتے۔ لیکن سپریم کورٹ کی اس کارروائی کے دوران ایسے سوالات اُٹھا ئے گئے جو غیر متعلقہ تھے۔ مثال کے طور پر عدالت نے کابینہ میں شامل افراد کی تعداد پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں شامل اراکین کی زیادہ تعداد سے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو کچھ علم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کابینہ کے حجم کا اس وبا سے کیا تعلق ہے؟ اور کیا اس ملک میں کوئی آئین ہے کہ نہیں ہے؟ کابینہ کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے؟ اس کا ذکر آئین میں موجود ہے۔

جہاں تک وزراء اور وزراء مملکت کا تعلق ہے تو آئین کے آرٹیکل 92 کی رو سے پاکستان کی کابینہ میں وزراء اور وزراء مملکت کی تعداد اراکین پارلیمنٹ کی کل تعداد کے گیارہ فیصد سے زائد نہیں ہو سکتی۔ اس حساب سے پاکستان کی کابینہ میں 49 تک وفاقی وزراء اور وزراء مملکت شامل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی کابینہ میں 25 وفاقی وزراء اور چار وزراء مملکت شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ تعداد مقرر کردہ حد سے کافی نیچے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 93 کی رو سے زیادہ سے زیادہ پانچ مشیر مقرر کیے جا سکتے ہیں اور اس وقت پانچ مشیر کام کر رہے ہیں۔ آئین میں وزیر اعظم کے سپیشل اسسٹنٹ کے عہدے کا تو ذکر ہے لیکن ان کی تعداد کی حد مقرر نہیں کی گئی۔ اس طرح اس حوالے سے حکومت پر طعن و تشنیع کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

اس کارروائی کی جو رپورٹنگ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق عدالت کی طرف سے یہ تبصرے بھی کیے گئے : وہ وقت آ رہا ہے کہ لوگ کراچی میں پولیس اور سرکاری گاڑیوں پر حملے کریں گے۔ وزیر اعظم کی کابینہ غیر موثر ہو چکی ہے۔ ہم انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو خطرہ ہے۔

معذرت کے ساتھ خواہ اسے میرا وہم سمجھیں، اس بات کا بہت بڑا امکان موجود ہے کہ اس قسم کے بیانات پڑھ کر کچھ شر پسند عناصر فسادات اور لوٹ مار کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اور اس سے زیادہ بد نصیبی کوئی نہیں ہو گی۔ اس وقت قوم کو سب سے زیادہ نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔

کچھ حقائق کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک ساڑھے چھ ہزار کورونا کے مریض دریافت ہوئے ہیں اور اب تک 124 اموات ہوئی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے 15 اپریل کو جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سپین میں اس کے ایک لاکھ بہتر ہزار مریض ہیں اور اٹھارہ ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ اٹلی میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں اور اکیس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ فرانس میں ایک لاکھ دو ہزار کے قریب لوگوں کو یہ وائرس لگا ہے اور پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکتے ہیں۔ برطانیہ میں ترانوے ہزار اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور بارہ ہزار سے زائد افراد مر گئے۔ اور تو اور ترکی میں بھی پاکستان سے دس گنا زائد افراد اس بیماری مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو کئی دہائیوں سے اپنے نظام صحت پر ہم سے بیسیوں گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان سب ممالک میں تو کابینہ کا ناکارہ قرار نہیں دیا گیا۔ نہ یہ اعلان کیا گیا کہ ہمارا سیاسی نظام ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آخر ایسے اعلانات ہمیشہ پاکستان میں کیوں سننے میں آتے ہیں۔ ہر حکومت کے کام میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ حکومت کے کام پر تنقید بھی ضرور کریں۔ اسی طرح یہ کوششیں بہتر ہوں گی۔ لیکن ہم سب کے لئے ایسے تبصروں سے گریز کرنا ضروری ہے جس کے نتیجہ میں بد امنی اور مایوسی پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments