قلاش ہوتی دنیا اور ہماری امداد مانگنے کی عادت


کرونا نے اس وقت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ -2007-8ء کے معاشی بحران سے ابھی دنیا کو باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملا تھا جس نے دنیا کی تمام ترقی یافتہ حکومتوں پر یہ بات ثابت کر دی تھی کہ باوجود اس کے کہ سرمایہ داری اور آزاد منڈی کی معیشت بلا خوف و خطر دنیا بھر میں راج کر رہی ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے جغاوری معیشت دانوں کا یقین کامل تھا کہ یہ ترقی کا واحد حل ہے لیکن درحقیقت اس نے پوری دنیا کی معیشت کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔

قرضوں کے بوجھ اور بڑے سرمایہ داروں کی منافع کے نام پر ہوس نے نہ صرف معیشت کی کمرتوڑ کر رکھدی بلکہ وہ سہولیات جو عوام کو پہلے سے میسر تھیں جیسا کہ مستقل نوکری، پینشن، تعلیم اور صحت وغیرہ کا ”ملکی ترقی“ کے نام پر خاتمہ کر کے اس کو کاروبار بنا کر عوام کو سرمایہ داروں کے جبڑوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ دنیا کے بیس بڑے مقروض ممالک کی صف میں تو خیر سے کوئی بھی ترقی یافتہ کہلائے جانے والا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہے جو اس میں شامل نہیں ہے چاہے وہ امریکہ، کینیڈا، اٹلی، فرانس، برطانیہ، سنگاپور اور جاپان ہی کیوں نہ ہوں اور پاکستان تو اس میں کہیں نظر بھی نہیں آتا ہے۔

پچھلے تقریباً پندرہ سال سے دنیا بھر میں شرح نمو میں کمی آئی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ، چین اور یورپ کی حالیہ تجارتی جنگ اور دنیا بھر میں ہونے والی جنگیں اسی کساد بازاری کا شاخسانہ ہیں اور اب اوپر سے کرونا کے حملے نے تو اور بھی زیادہ کمر توڑ کر رکھدی ہے اب ہر ملک کو فوری کیش کی ضرورت ہے تاکہ طبی سہولیات کو جلد پورا کر سکیں کیونکہ ہر روز ایک ہزار اموات وہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں اور صرف ناکافی طبی سہولیات کی عدم موجودگی کی بناء پر ہو رہی ہیں۔

ان حالات میں ہمارے ہردلعزیز، جہاندیدہ اور خوددار وزیراعظم صاحب آج کل خوب زوروشور سے روز تمام دنیا سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اس لئے ہمیں نہ صرف امداد فراہم کی جائے بلکہ ہمارے پچھلے قرضے معاف بھی کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی اس پر غور کیا گیا ہے کہ یہ قرضے لئے کیوں جاتے ہیں۔ جب تک یہ موجودہ حکومت اپوزیشن میں تھی تب ہمیں بہت جوش و خروش کے ساتھ بتایا جاتا تھا کہ ہمارے وسائل بہت زیادہ ہیں اور حکمران صرف اپنی عیاشیوں کے لئے قرض لیتے ہیں جو ہم نہیں لیں گے لیکن اقتدار میں آتے ہی ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے حاصل کیے گئے۔

ہمارے ملک میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ”آئی ایم ایف کی ملک دشمن پالیسیاں“ پہلے تو یہ بات ہے کہ آئی ایم ایف ایک مہاجن ادارہ ہے جو مانگنے پر قرضہ دیتا ہے اور جب بھی کوئی کسی کو قرضہ دیتا ہے تو پھر یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ اس قرضے کی واپسی کیونکر ہوگی جب ہم اُمراء پر ٹیکس لگانے سے انکار کرتے ہیں تو پھر یہ ادارہ اپنے پیسے کی واپسی کے لئے بجلی، گیس اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اضافے کا مطالبہ کرتی ہے جو حکومت پورا کر دیتی ہے جس سے عام آدمی کی چیخیں نکل جاتی ہیں جبکہ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو یہ دشمنی آئی ایم ایف نے نہیں بلکہ حکومت نے کی ہوتی ہے۔

ٹیکس ایک ایسا نظام ہے جس کا اصُول ہے کہ وہ لوگ جن کی آمدن زیادہ ہے وہ زیادہ ٹیکس دیں اور کم آمدن والے کم اور یوں پیسے کا دھارا اوپر کی سطح سے نکل کر کم آمدن والے لوگوں کی فلاح پر خرچ ہو اور ملک کا نظام بھی اسی سے چلے جس کو براہ راست ٹیکس کہا جاتا ہے۔ اس کی شرح ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً 80 فیصد ہے اور بالواسطہ ٹیکس جن کو ان ڈائرایکٹ ٹیکس کہا جاتا ہے اُس کی شرح 20فیصد ہوتی ہے اس میں جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ پر ٹیکس شامل ہوتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ شرح بالکل اس کے برعکس ہے یعنی تمام ملک اور اس میں رہنے والی اشرافیہ کو یہاں کی غریب عوام پال رہی ہے بلکہ ان کے اللے تللے بھی یہی عوام مرکھپ کے پورا کر رہی ہے جبکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہمارے وسائل ہی نہیں ہیں۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ یہ فرماتی ہیں کہ ہم نے ریکارڈ ٹیکس کم کیے لیکن کیا وہ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں کم کیے یا بجلی، گیس اور پٹرول کی مد میں کم کیے جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچتا بلکہ دراصل یہ تمام ٹیکس چھوٹ صرف بڑے صنعتکاروں کو دی گئی ہے جس سے عام آدمی کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس ملک کی معاشی ترجیحات درست کر کے ایک لمبی چھلانگ لگا سکتے ہیں لیکن یہاں کا حکمران طبقہ یہ کبھی بھی نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان الحمدللہ وسائل کے معاملے میں تو بہت خوش قسمت واقع ہوا ہے لیکن ان وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے سلسلے میں بہت بدقسمت واقع ہوا ہے مثلاً ترقی یافتہ ممالک نے بڑی زمین داری ختم کر کے اس کو بے زمیں کسانوں میں تقسیم کر کے اپنی پیداوار کو بڑھا کر اپنے ممالک سے غذائی قلت دور کر لی اس کے مقابلے میں ہم ان کے بڑے زمین داروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں چاہے وہ سندھ کے وڈیرے ہوں یا بلوچستان کے سردار ہوں۔

اسی طرح ہم نے ریکوڈیک اور اس طرح کی معدنیات نکالنے کے ٹھیکے غیر ممالک کو دے رکھے ہیں اگر یہی ٹھیکے ہم یہاں کے کان کنوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیں جو آج غیر ملکیوں کو دے رکھے ہیں جو جھولیاں بھر کر یہ دولت اپنے ممالک میں لے جا رہے ہیں تو یہ دولت ہمارے پاس ہی رہے گی اور اس سے ہم نہ صرف کان کنی کی لئے جدید ٹیکنالوجی نہ صرف حاصل کر سکتے ہیں بلکہ بنا بھی سکتے ہیں جبکہ غیر ملکی ٹھیکوں کی بڑی مثال جنوبی افریقہ کی ہے جہاں ہیروں کی کانیں برطانیہ والے کھا گئے اور مقامی لوگ آج بھی غربت و افلاس میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ہم روز آٹا، چینی، آئی پی پیز وغیرہ کی بلیک میلینگ اور ذخیرہ اندوزی کا عذاب سہتے ہیں آج کل تو واویلا بھی بہت ہے اور وزیراعظم صاحب نے کمیشن بھی بٹھا دیا ہے کیا اس کو جواز بنا کر یہ تمام انڈسٹری قومیائی نہیں جاسکتی لیکن قومیانے کا یہ طریق کار ویسا قطعی طور پر نہ ہو جیسا بھٹو دور میں ہوا تھا کہ انڈسٹری قومیانے کے بعد بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے پھر اس کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو پہلے ہوا تھا بلکہ اس انڈسٹری کو وہاں کام کرنے والوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے جو اب بھی عملاً اس کو چلا رہے ہیں جب کہ سیٹھ یہاں آکر نہ صرف ان کا استحصال کرتا ہے بلکہ ذخیرہ اندوزی کر کے عوام کا خون بھی چوستا ہے اور حکومتوں کو بلیک میل بھی کرتا ہے

آج آئی ایم ایف نے پچیس ممالک کے قرضوں پر موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے چھ ماہ کے لئے واپسی پر سہولت دی گئی ہے ان میں سے انیس ممالک افریقہ کے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں افغانستان، نیپال، یمن اور تاجکستان وغیرہ شامل ہیں لیکن ان میں پاکستان کا نام نہیں ہے جبکہ ہمارے وزیراعظم کی اہ و بکا تو دور تک سنی جا سکتی تھی لیکن یہ لوگ اتنے بھی بیوقوف نہیں ہیں کہ ایک ایسا ملک جو نہ صرف اپنے وسائل کو استعمال میں نہیں لانا چاہتا نہ ہی ٹیکس نظام کو بہتر کرنا چاہتا ہے بلکہ افسر شاہانہ طریق کار کو بھی جوں کا توں برقرار رکھنے پر مُصر ہے۔

پاکستان میں بیوروکریٹس کو اپنی تنخواہوں، مراعات اور اختیارات کے معاملے میں جو مقام حاصل ہے وہ دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں بیوروکریسی کو حاصل ہوں۔ ایکڑوں پر محیط مکانات، کار، پٹرول بے پناہ مراعات اور اُن بہت سی چیزوں پر دسترس جو عام آدمی کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ یہ شاہانہ طریقے صرف سامراجی ممالک نو آبادیاتی ممالک میں اپناتے ہیں جہاں غیرملکی حاکم مقامی رعایا کی کمائی پر عیاشی کرتے ہیں لیکن یہاں تو گنگا ہی اُلٹی ہے۔

یہ لوگ دراصل عوام کے ملازم ہوتے ہیں لیکن یہاں یہ حقیقت میں مالک ہیں چاہے یہ بیوروکریسی سول ہو یا ملٹری ہو لیکن مالک یہی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایمانداری سے دیکھیں تو بیوروکریسی پر اخراجات مکمل طور پر غیر پیداواری ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں اُستاد، میڈیکل (بشمول تمام پیرا میڈیکل سٹاف) ، انجینئرز نہ صرف اہم بلکہ بہت باعث عزت پیشے ہیں۔ بیوروکریسی کی تنخواہ اور مراعات کسی بھی صورت میں ان قابل قدر پیشوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ سیاسی اصلاحات کر کے بہت ساری جگہوں سے ان کے عہدے ختم کر کے جمہوری طور پر کمیونٹی کو اس قابل کیا جائے کہ کمیونٹی یہ تمام کام خود کر سکیں اور یہ تمام اقدامات اتنے مشکل نہیں ہیں بہت سے ملکوں میں ہمیں اس کی عام مثالیں ملتی ہیں بس ارادہ اور عزم چاہیے کیونکہ قومیں اسی طرح ہی بنتی ہیں اور ہمارے حکمران طبقے میں بس اسی ایک بات کی کمی ہے کیونکہ وہ بھی بہرحال اسی چور بازاری کا ہی ایک حصہ ہیں اور ہمارے وزیراعظم صاحب اُمید لگائے بیٹھیں ہیں کہ دنیا ان کو امداد دے گی جبکہ یہ تو اپنے امراء پر ٹیکس عائد نہ کریں اور دنیا اپنے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان پر خرچ کرے۔ کوئی مر نہ جائے اس سادگی پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments