ہمارے قید خانوں میں کیا ہوتا ہے؟


کورونا کی بیماری ابھی تک الحمدللہ ہمارے ملک میں کسی خوفناک صورت میں ظاہر نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس بیماری کی شروعات میں ہی لاک ڈاؤن ہوگیا تھا۔ پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ وبا عموماً جان لیوا ہے بھی نہیں۔ اکثر افراد اِس بیماری سے بغیر کسی خاص علاج کے ہی نکل آتے ہیں۔ بڑی حد تک آج کل ہماری عوام اِس بیماری یا موت کے خوف سے نہیں کانپ رہی، بلکہ اپنی سابقہ آزادی کو رو رہی ہے۔

لوگ بازاروں کی یاد میں گھٹ گھٹ کر مرے جارہے ہیں۔ لوگوں کو باہر کے کھانے یاد آرہے ہیں۔ لوگوں کو دفتر اور نوکری یاد آرہی ہے۔ جو غریب ہیں، دہاڑی دار ہیں وہ بیچارے اب سارے ہی امداد پر آگئے ہیں۔ مگر کچھ نہ کچھ تو خیر ہو ہی جائے گا۔ ان ’بند کباب‘ کے لئے مرتے لڑکوں اور لڑکیوں کو ’بند کباب‘ بھی ملیں گے اور دوبارہ سینما بھی سجیں گے۔ مذہبی لوگوں کو دوبارہ کندھے سے کندھا ملا کر (اور جن کو ٹخنے سے ٹخنا ملانا ہو ا انہیں ٹخنے سے ٹخنا ملا کر) جماعت سے نماز پڑھنے کو بھی جلد مل ہی جائے گی۔ غالب ؔنے ویسے ہی کہہ دیا تھا،

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟
مگر مجھے ذاتی طور پر لوگوں کو اِس قید پر بلبلاتا دیکھ کر ایک کمینی سی خوشی بھی ہوئی ہے۔ جھوٹ کیوں بولوں میں تو اپنی کمینگی کا اعتراف کرنے کا شروع سے قائل ہوں۔ ہمارے معاشرے میں کوئی کبھی بھی کسی کا دکھ اُس وقت تک سمجھتا ہی نہیں کہ جب تک اس کا خود کچھ برا نہ ہوجائے۔ لوگوں کو قید کی یہ ہلکی سی جھلک اتنا تڑپا گئی، چلئے اب آپ کو ایک اور دنیا کی تصویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کی قید اِس سے ہزار گنا سخت ہے۔ ویسے توکم و بیش ہم سب اپنے اپنے امیج کے قیدی ہی ہیں مگر میں اُس قید کی بات نہیں کررہا۔ میری موضوع اِس ملک کے مختلف شہروں میں بنے جیل خانے ہیں۔

جیل خانے کہ جن میں قیدی رہتے ہیں۔ وہ قیدی کم، جو سزایافتہ ہوتے ہیں اور وہ زیادہ جو کہ جوڈیشنل کسٹڈی میں ہوتے ہیں۔ یعنی انڈر ٹرائل پرزنرز یا کچے قیدی۔ کراچی کے مرکزی جیل خانے میں ایک زمانے میں ایک ہزار پکے قیدی اور چار ہزار کچے قیدی تھے۔ عموماً یہی تناسب رہتا ہے۔ اِن قیدیوں کو کیا سہولیات میسر ہوتی ہیں؟ قیدیوں کی دو کلاسز ہیں، سی کلاس یعنی ریلوے کی زبان میں تھرڈ کلاس اور بی کلاس یعنی کوٹھری والے قیدی۔ پکے قیدیوں میں بھی دو درجات ہیں، قید اور سزائے موت۔ سزائے موت کے قیدی بالکل الگ ہی رکھے جاتے ہیں۔ ایک اور محدود سا طبقہ ڈیٹینڈ قیدیوں کا بھی ہے جو کہ جیل میں بھی بالکل بند ہی رہتے ہیں۔

ویسے تو قانوناً یہ ہی تفریق موجود ہے مگر عملاً جیل میں دس طرح کی کلاسز ہیں۔ قیدی جتنا پیسا پھینک سکتا ہے وہ اُسی حساب سے کچھ رعایتیں پا سکتا ہے۔ مگر وہ رعایتیں کیا ہیں؟ روزانہ گھر سے پکا ہوا کھانا، صفائی ستھرائی کے لئے مشقتی، گھر والوں سے ملاقات میں تھوڑی سی آسانی اور عملے سے تھوڑا بہتر رویہ۔ آج سے تین سال قبل جب کراچی کے مرکزی جیل سے دو قیدی فرار ہوئے اس کے بعد قیدیوں سے تقریباً تمام ہی سہولیات چھین لی گئیں۔ ان کو جو تھوڑا بہت وقت بیرک سے باہر بیٹھنے، دوسرے قیدیوں سے بات چیت کرنے اور نماز باجماعت پڑھنے کے لئے ملا کرتا تھا وہ بھی اُن سے چھین لیا گیا۔ ان کو ان کی بیرکوں اور سیلز میں مکمل طور پر سیل کردیا گیا۔ پھر ہلکے ہلکے جیل کھلا مگر وہ سہولیات کبھی واپس نہ آئیں۔ اور ابھی تقریباً 6 ماہ قبل قیدیوں سے ٹی وی بھی چھین لئے گئے۔

قیدی کس مشکل سے اور کتنی تکلیف سے اپنے گھر والوں سے تھوڑی سی دیر کی ملاقات کرتے ہیں اُس کا اندازہ بھی کرنا لوگوں کے لئے مشکل ہے۔ کچے قیدیوں کے لئے عدالت جانا ہی عید ہے۔ وہاں ان کی اپنے گھر والوں سے 2 یا تین گھنٹے ملاقات ہوجاتی ہے۔ اِس محدود سی ملاقات کے لئے بھی قیدیوں کو اور ان کے گھر والوں کو پولیس والوں کی مٹھی گر م کرنی پڑتی ہے۔ بیرکوں میں موجود قیدیوں کہ پاس رات کو سوتے وقت بمشکل کروٹ جتنی جگہ ہوتی ہے۔ رات گیارہ بجے کے بعد بیرک کا قیدی بیت الخلا نہیں جاسکتا۔ ان تمام تکلیفوں کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ قیدیوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں بات بے بات انتظامیہ تکلیف دیتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارا پیٹا جاتا ہے۔

شاید آپ یہ سمجھتے ہوں کہ قیدی اسی لائق ہیں۔ ظاہر ہے کیونکہ آپ جیل نہیں گئے اور آپ ایک ”نیک پاکیزہ وجود ہیں اس لیے اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیک پاکیزہ لوگ جیل نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں وہ مجرم ہوتے ہیں، اور مجرم ہیں تو سزا ہی ملے گی۔ “ جن پر جرم ثابت ہوچکا ان کو تو چلئے سزا ملتی ہے مگر کچے قیدی تو ملزم کے درجے میں ہوتے ہی تو صرف الزام پر ہی وہ سزا کے لائق کیسے قرار پاتے ہیں؟ سوال یہ بھی تو ہے کہ جیل خانے سزا دینے کے لئے ہیں یا اصلاح کرنے کے لئے؟ اگر سزا دینے کے لئے ہیں تو کس قیدی کی سزا کے لئے؟ جن کو ابھی تک عدالتوں نے بھی سزا نہیں سنائی ان کی بھی سزا کے لئے؟

یہ وہی معاشرہ ہے جہاں جیل میں آپریشن کر کے رات کو سوتے قیدیوں کواٹھا کر تلاشی لی گئی تھی اور اُن سے ان کی نقد ی اور دھاتی چمچیاں تک چھین لی گئی تھیں۔ اُن سے ٹی وی سیٹ اور کولر تک ہتھیا لئے گئے تھے۔ جب یہ خبر سوشل میڈیا پر چلی تھی تو لوگوں نے رائے زنی کی تھی کہ ’دیکھو قیدی کیسے عیاشی سے جی رہے تھے‘ ۔ یہ ظالم معاشرہ دنیا کے ستائے ہووں کو ستاتا ہے، جن کا سب لوٹ کر ان کو قید کرڈالا ان کی گدڑیاں بھی چھین کر ان کی حالت پر ہنستا ہے پھر اترا کر سوال کرتا ہے کہ یہ کرونا وائرس ہمارے کن اعمال کی سزا ہے؟ اگر سزا ہے، تو پھر آپ اسی لائق ہوں گے۔ اور اگر آپ اسی لائق ہیں تو پھر یہ رونا دھونا کس لئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments