بھولا صاحب مفتی منیب کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں


”سر جی! ویسے اخیر ای نئیں ہو گئی، کوئی شرم ہوتی اے، کوئی حیا ہوتی اے، ہماری حکومت تو اُکاّ ای بس۔ چھڈو جی، کیا بات کرنی اے۔ “

” او بھولے کیا ہو گیا، خیریت ہے، بڑا ناسوں سے دھواں نکال رہے ہو۔ “
” جب بندے کے اندر بالن بل رہا ہو تو ناسوں سے دھواں ای نکلنا اے ہور رَو نکلنی اے۔ “
” بس وئی بس، اتنا غصہ! او بات کیا ہے؟ “
” بات کیا ہونی اے، مہینے پورے سے اِکّوں ای راگ۔ اخے جی مسجدوں میں نئیں جانا، لاک ڈاؤن اے۔ نمازیں کَرَوں میں پڑھیں۔ فیر کہا جمعہ بھی کَرَوں میں پڑھیں اور اب کہتے ہیں کہ رمضان میں ترابیاں بھی کَرَوں میں۔ میرا جی کرتا ہے چیر دوں ان بے ایمانوں کو جن کو موت بھی پُلّی ہوئی اے۔ “

” تو ٹھیک ہے نا! انسانی جانوں کو بچانے کے لئے یہ انتظام ضروری ہے، ٹھیک کر رہی ہے حکومت۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنائے۔ “

” اور رب کی طرف جو فرض اے، اس کا کج نئیں! “
” رب کا بھی یہی حکم ہے، اور ویسے بھی اللہ معاف کرے، حکومت نے عبادتوں کو معطل تو نہیں کیا نا، فقط اتنا کہا ہے کہ اجتماع نہ کریں۔ “

” تو فکر نہ کریں، او دن بھی دور نئیں جب گل معطلی تک بھی پہنچ جانی اے، گل جس پاسے ٹُر پڑی ہے نہ، کج بھی ہو سکتا اے۔ “

”اوئے ایوئیں فضول بَک بَک نہ کیا کر۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، یہاں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، توبہ کر، پاگل۔ “

” او سرجی! اللہ ماف کرے، یہ کافروں کے اجنٹ، ہمارے امان کی حرارت مِنتے ہیں ایسے حکموں سے کہ ویکھیں کتنی غیرت رہ گئی اے ہم میں۔ اور ان کی مسلمانی بھی ویکھیں زرا، اخے مسجدوں میں بھی لاک ڈاؤن اے۔ دّر فِٹے منہ، ڈُب کے مر جاؤ، پلا کوئی مسلمان مسجد کے لئے لاک ڈاؤن کا لفظ ورتتا ہے۔ مجھے تو ڈر لگتا اے کہیں زمین ای نہ پاٹ جائے۔ “

” کوئی ایسی بات نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی زمین پھٹ رہی ہے، یہ سب کچھ رب کی مخلوق کی بھلائی کے لئے ہو رہا ہے۔ تم سازشی کہانیاں نہ سناؤ۔ “

” اگر یہ کہانیاں ہیں تو فیر مسجدیں کیوں نہیں کھول رئے، مر جانے کاروبار تو کھول دیے ہیں۔ “
” کاروبار صرف وہ کھلے ہیں جن سے مزدوروں وغیرہ کی روزی روٹی چلتی ہے اور وہ بھی پابندیوں کے ساتھ کہ دور دور رہ کے کام کرو۔ کم ازکم چھ فٹ دور رہ کے۔ “

” چھ فُٹ نئیں، دُر فٹ ایسی پلیسی پر۔ بندہ پچھے یہ نائی کیا دُوروں دُوروں ای چِمٹے سے اّسترا پھڑ کے شیو کرے گا۔ کانس کاٹنے والے لَمّے قینچے سے بال کاٹے گا۔ سب ڈرامے بازیاں ہیں۔ صرف مسجدوں سے مسئلہ ہے ان کوڑوں کو۔ “

” بھولے! تو کبھی مسجد میں گیا ہے؟ نہ نماز، نہ جمعہ، نہ عید، تراویح اور روزے کی تو بات ہی چھوڑ دو۔ اور غصہ ایسے کر رہا ہے جیسے سب سے زیادہ نقصان تیرا ہوا ہے۔ “

” میں نے پہلے بھی کئی وار کہا اے کہ او میرا ذاتی ماملہ اے۔ پر میں مسجدوں کا لاک ڈاؤن، اوہ۔ میرے منہ میں سواہ، یعنی باجماعت نماز بند ہونا برداشت نئیں کر سکتا۔ “

” میں تیرے جذبات کی قدر کرتا ہوں پر دیکھ سعودی عرب نے بھی حکم دیا ہے کہ اس مرتبہ تراویح اور اعتکاف کا اہتمام گھروں میں کریں۔ “

” انہیں چھڈیں سر جی! انہوں نے اللہ کو اپنا جباب آپ دینا اے۔ ہمارے مفتی صاحب نے تو کل علان کر دیا اے، رمضان میں لاک ڈاؤن ٹھاہ۔ باجماعت نماز بھی ہو گی، باجماعت ترابیاں بھی اور اعتکاف بھی۔ “

” کون سے مفتی صاحب نے اعلان کیا ہے“
” اوہئی جو ہر رمضان اور عید پر چن چاڑتے ہیں۔ “
” بے وقوفا! چاند چڑھاتے نہیں، چاند دیکھ کر رمضان، عید اور دوسرے اسلامی مہینوں کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔ “

” اوہئی والے، بالکل اوہئی والے۔ “
” لیکن وہ تو کہہ رہے تھے کہ حکومت کی پالیسی کرونا کے بارے میں درست ہے اور وہ اس پر عمل بھی کر رہے تھے۔ “

” کر رئے تھے، بالکل کر رئے تھے۔ “
” تو پھر اب کیا کرنا ہے۔ “
” ہن نئیں کرنی۔ “
” کیا نہیں کرنی۔ “
” پابندی۔ ہور کیہ۔ “
” بھولے! تو اتنا خوش نہ ہو، وزیرِ مذہبی امور سے ان کی بات چل رہی ہے۔ وہ پڑھے لکھے سمجھدار آدمی ہیں، امید ہے مان جائیں گے۔ “

” ویکھیں جی ہم نے تو ان کے پیچھے ٹُرنا اے، جے وہ مان گئے تو ہمارا نعرہ ہوگا۔ کرونا سے ڈرنا نئیں لڑنا اے۔ “

” اور خدا نہ خواستہ اگر وہ نہ مانے، تو؟ “
” تو فیر کیا! نعرہ تیار اے۔ حکومت سے ڈرنا نئیں، لڑنا اے۔ آہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments