مولوی سعید اظہر اور احفاظ رحمن کو سلام وداع


پیشۂ صحافت کی شان و شوکت دو بڑے ستون گر گئے دونوں عامل اخبار نویس تھے وہ ظالم اور سنگ دل کرونا رُت میں رخصت ہوئے کہ سلام وداع کے لئے بھی حاضر نہ ہو سکا

اور رہے میر جاوید الرحمن تو وہ میرے لئے ہم دم دیرینہ طاہر مسعود جان کے بہنوئی تھے انکل جان محمد بھٹی ایڈووکیٹ کے داماد تھے، جنگ گروپ میں طویل اور ہنگامہ خیز 12 برس گزارے لیکن ان سے کبھی ملاقات نہ ہوسکی کہ یہ کالم نگار تو میر شکیل رحمن (MSR) کا بازو ئے شمشیر زن تھا اور میر جاوید اپنے چھوٹے بھائی سے مقدمات میں الجھے ہوئے تھے

مولوی سعید اظہر کے بارے میں کیا خاک لکھوں گا برادرم سعید آسی اور جناب رؤف طاہر نے دوستی اور تعلق کا حق ادا کردیا ہے والہانہ پن، ان کے پُرسوں، تعزیت ناموں سے امڈتا ہے انہوں نے موئے قلم سے انہیں زندہ جاوید مجسم کردیا ہے

مولوی سعید اظہر بارے جناب رؤف طاہر کا تعزیت نامہ خاصے کی چیز ہے کہ انہوں نے نظریاتی تقسیم کے پرشکوہ دور کی ان کہی داستان بیان کردی ہے جب دائیں بازو کا بلند آہنگ کھرا دانشور مولوی سعید اظہر لکیر عبور کرکے بائیں بازو کے ”چکا چوند“ اندھیروں میں کھو گیا تھا

اس کے پس پردہ محرکات کا اس کالم نگار کو بوجوہ مکمل احساس ہے لیکن لکھنے کا یارا نہیں، اسے مرحوم منو بھائی کے الفاظ میں یوں کہا جاسکتاہے کہ مرحوم سعید اظہر پیشہ صحافت میں جماعت اسلامی کے عباس اطہر گروپ سے تعلق رکھتے تھے جس کے اراکین میں اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں شہید صحافت کا، اعزاز ’پانے والے خلیل ملک اور الاستاذ ہارون الرشید اور یہ کالم نگار بھی شامل تھا مجھ تک پہنچتے پہنچتے یہ نظریاتی تقسیم عالمی سطح پر سوویت یو نین کی موت نے اور پاکستان میں میاں نواز شریف کی دولت نے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالی اس لئے مولوی سعید اظہر نہیں، پیشہ ورانہ صحافت کا روشن باب دفن ہوا ہے

رہے احفاظ الرحمن تو انہیں پیکنگ (جو اب بیجنگ کہلاتا ہے ) اور ان کے دوست کیپٹن زاہد کی یادوں کی روشنی میں ڈھونڈنا چاہتا ہوں جن کی شان میں احفاظ نے نظم لکھی تھی ”میرے کاغذوں میں لکھا ہے“ کہتے ہیں کہ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی طرز پر شعر کہنے والے اکرم ذکی چین میں سفیر تھے اختتام ہفتہ شاعری کا دربار لگایا کرتے تھے وہاں اہتمام سے بیجنگ میں مقیم پاکستانی دانشوروں کو بھی بلایا جاتا تھا انقلابی احفاظ الرحمن کا ایسے درباروں سے کیا لینا دینا، وہ کبھی اس شاعرانہ دربار میں نہ گئے تھے پھر کسی نہ کسی طرح انہیں مشاعرے میں بلا لیا گیا تو انہوں نے سفیر شہیر اکرم ذکی کا قصیدہ پڑھنے کی بجائے اپنے جواں سال دوست کیپٹن زاہد محمود خان کی شان میں نظم کہہ ڈالی

”میرے کاغذوں میں لکھا ہے“ جس پر ڈیفنس اتاشی نے نوجوان کپتان کی جواب طلبی کر لی کہ جو نظم سفیر کی شان میں کہی جانی تھی وہ تم سے کیسے منسوب کی گئی یہ آرمی ایکٹ اور سفارتی آداب کے منافی ہے کپتان کیا بولتا لکھ کر دے دیا نظم میں نے نہیں، احفاظ الرحمان نے لکھی ہے ان سے پوچھ لیں، ملنگ اور درویش قلم کار شاعر سے کسی کرنل جنرل کی کیا مجال تھی کہ حرف سوال زبان پر لاتا یہ کالم نگار جب مدتوں بعد بیجنگ پہنچا تو احفاظ الرحمن کی خوشبو جا بجا محسوس کی اردو بولنے والے چینی آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں

اس کالم نگار نے طویل 6 برس ایکسپریس گروپ میں احفاظ صاحب کے ساتھ گزارے لیکن شاذ ہی ملاقات ہوسکی کہ صحافتی یونین بازی احفاظ مرحوم کی شناخت تھی جبکہ یہ کالم نگار یونین سازی سے شدید الرجک رہا ہے ویسے بھی وہ برنا گروپ سے تعلق رکھتے تھے جس کی گراس روٹ لیول تک رسائی اور تین نامورساتھی کارکنوں کے گھر اجاڑنے کی کہانیاں سید والا تبار اپنے شاہ جی عباس اطہر سے سن چکا تھا

ان کے ساتھیوں جناب شمسی برادرم احمد لطیف اور فاضل جمیلی نے شاندار انداز میں انہیں سلام وداع کہا ہے
سی آر شمشی رقم طراز ہیں
صدر صاحب۔ آپ بھی چلے گئے خاموش تو وہ آزادی صحافت کی جدو جہد ”آخری جنگ“ لکھنے کے بعد ہی ہوگئے تھے، مگر سامنے تو تھے، احساس تھاکہ صحافت کا وقار، لفظوں کی حرمت سے آشنا احفاظ الرحمان موجود ہیں، آواز تو بیماری نے چھین لی تھی مگر اشارے، تحریریں امید، رہنمائی راستہ دکھاتیں تھیں، جید صحافی، شاعر ادیب، سچا ٹریڈ یونین لیڈر، انسانی جذبوں کی خوشبو بکھیرے احفاظ صاحب کی زندگی حقیقتاً ”کورا کاغذ تھی جس پر صرف جدو جہد رقم ہے، پہلے دُور سے پھر قریب سے سننے، دیکھنے محسوس کرنے کا موقع اس وقت ملا جب وہ 2004 میں پی ایف یو جے (برنا گروپ) کے صدر منتخب ہوئے تو بطور سیکرٹری جنرل ان کی قیادت میں کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، اس زمانے میں ملک میں چوتھا مارشل لاء جوبن پر تھا، آزادی صحافت، صحافیوں، کاکنوں کے حالات کار بدلنے کی تحریک بھی عروج پر تھی، تنظیم سے ان کی محبت کی بنیاد آئین، اصولوں سے غیر متزلزل وابستگی تھی جس پر انھیں ایک لمحے کے لئے کبھی نرم پڑتے نہیں دیکھا،

یہ حقیقت ہے کہ تنظیم کے وہ آخری صدر تھے جنہوں نے پی ایف یو جے ( برنا گروپ ) کے وقار اور طاقت میں کمی نہیں آنے دی!

آزادئی صحافت کے قافلے کا آخری سالار بھی چلا گیا!
فوزیہ شاہد نے ان کے رخصت کی اطلاع دی تو جھٹکا سا لگا میرے تو وہ ہمیشہ صدر رہے!
رات گئے ان کے ساتھ طویل عرصہ تک ”ایکسپریس“ میگزین میں کام کرنے والے احمد لطیف سے باہم غم بانٹنے کے لئے رابطہ کیا۔ تو وہ بولا ”اندھیر ہوگیا“ احمد لطیف غم زدہ تھا، کہنے لگا،

احفاظ صاحب کو صحافت اور صحافیوں کے دکھوں نے مار ڈالا، انھیں مارشل لاوں کا جبر، پابندیاں، تشدد، جیلیں، بے روز گاریاں نہیں توڑ سکیں مگر جب تنظیم ٹوٹی تو وہ بھی ٹوٹ گئے!

دل اداس ہے، صدر صاحب! آپ بھی چلے گئے؟
فاضل جمیلی نے تو رلا ہی دیا
اظہار ہوا رُخصت، للکار سُپردِ خاک
تکرار خُدا حافظ، انکار سُپردِ خاک
اب دُھوپ ہی قسمت ہے ہم راہ نوردوں کی
سایا سا کیے تھی جو دیوار سُپردِ خاک
جاتے ہوئے موسم سے کچھ پھول ہیں وابستہ
ہوتی نہیں پھولوں کی مہکار سُپردِ خاک
کر دیتا ہے مٹی کے اندر بھی اُجالا سا
ہو جائے اگر کوئی مینار سُپردِ خاک
کچھ لوگ کہ محفل سے جا کر بھی نہیں جاتے
کچھ ربط نہیں ہوتے یک بار سُپردِ خاک
افکار تو زندہ ہیں، دفنائے نہیں جاتے
کر آئے ہیں ہم اُس کی تلوار سُپردِ خاک

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments