کرونا پہ ہمارا ردعمل اطمینان بخش نہیں


آج کروناوائرس کی قسم کوووڈ 19 نے دنیا کی بیس لاکھ آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس وقت تک اس مہلک وبا کی وجہ سے دنیا میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میڈیکل کی جدید سہولتیں ہونے کے باوجود بھی بے بس ہیں۔ اس وبا کے نام سے ساری دنیا میں خوف اور وحشت طاری ہے۔ کسی کو پتہ نہیں ہے کہ اس کی زد میں اکر کون زندہ رہے گا اورکون مر جائے گا؟ بحیثیت قوم ہمیں اس وبا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس سے ڈرنا نہیں بلکہ جسمانی اورذہنی طور پر مضبو ط ہو کر اس سے بچنا ہے۔ ہمیں چاہیے اس وقت افراتفری کا شکار ہونے کی بجائے اپنی صحت اورصفائی کا خیال رکھیں، احتیاط کریں اور مثبت سوچیں۔

ہمارے ملک کے چند لوگوں نے اس وبا کو بھی مذہبی منافرت اور انا کا مسئلہ بنا یا ہوا ہے۔ وبا کا کوئی رنگ نسل فرقہ اور مذہب نہیں ہوتا ہے۔ یہ تو سب کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتی ہے۔ عوام کوچاہیے کہ وہ حکومت سے تعاون کریں اپنے گھر تک محدود ر ہیں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وبا کے دنوں میں باجماعت نماز نہ پڑھنا اور مسجدوں کو بند کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے اور ہمارے علماء کرام بھی لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مسجد میں آکر باجماعت نماز اور تراویح پڑھیں۔ ان کی یہ منطق بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بچے، بوڑھے اور بیمار مسجدوں میں نہ آئیں۔ صرف جوان مسجدوں میں آکر نماز پڑھیں۔ تو کیا جوان لوگ بیمار نہی ہوسکتے ہیں؟ کیا وہ گھر میں جا کر اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کو بیماری پھیلانے کا موجب نہیں بن سکتے ہیں۔ اگر اس طرح وبا پھیل گئی اور خداناخواستہ لوگوں کی جانیں چلی جائیں تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اللہ تعالی کو انسانی جان کی اتنی زیادہ حرمت ہے کہ اگر جان جانا مقصود ہو تو حرام کھانا بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔

ہمارے علماء ہمیں توکل کا درس دیتے ہیں لیکن ان حالات میں توکل کرنا وبا کو گلے لگانا اور خودکشی کر نے کے مترادف ہو گا۔ ہماری مسجدیں تو الحمدللہ کھلی ہیں۔ اذانیں بھی ہو رہی ہیں۔ امام کے ساتھ تین چار لوگ باجماعت نماز بھی پڑھ رہے ہیں۔ ہمار ی اپنی ذمہ دار ی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس مہلک وبا سے بچائیں۔ ہمیں یہ خیال بھی رکھنا ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی دوسرا بھی متاثر نہ ہو۔ ہم سماجی دوری رکھ کر ہی اس وبا سے بچ سکتے ہیں۔ اگر کسی کو بخار، نزلہ، زکام اور کھانسی ہو تو گھر میں ہی چودہ دن تک قرنطینہ میں رہے اور اپنی صحت کا خیال رکھے۔ اسپتال میں ہو تو اسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹرز کے ساتھ تعاون کرے۔

لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سے ایسے لوگ جن کا گزارا روزانہ کی اجرت پہ تھا بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ ہماری مذہبی اور معاشرتی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کریں۔ ہمیں اپنے ملازموں کو بھی مہینے کے شروع میں ہی ان کی پوری تنخواہ ادا کرنی چائیے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں میں رہیں اور دوسروں سے سماجی دوری رکھیں۔

ھمیں اپنے بزرگوں اوربیماروں کا خاص خیال رکھنا ہے۔ پانی کا زیادہ استعمال کریں، پھل اور سبزیاں زیادہ کھائیں، وٹامن سی اور ڈی کا استعمال زیادہ کریں، ایکسرسائز کریں، سات آٹھ گھنٹے کی نیند پوری کریں۔ اس طریقے سے ہم اپنی قوت مدافعت کو کرونا کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کر سکتے ہیں۔

گھر میں فارغ اوقات میں کوئی اچھی سی کتاب پڑھیں، اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کو سمجھیں، ان کی تربیت کریں، اللہ کی عبادت کریں اور دعا کریں کہ اللہ ساری انسانیت کو اس مہلک وبا سے محفوظ رکھے اور جو متاثرہ اور نازک حالت میں ہیں ان کو بھی اللہ زندگی اور صحت دیے۔

ھمارے ملک میں بھی اب یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے دو افراد اس سے متاثر ہیں۔ ہمارے پاس ٹسٹنگ کی سہولتیں ناکافی ہونے کی وجہ سے متاٹرہ لوگوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں ہو پا رہا۔ حکومت نے مزدور طبقات کو فیکٹریوں پرکام کرنے اوردکانیں کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ کیا وہ کرونا سے متاثر نہیں ہوں گے؟ اس وقت سب کے لیے زندگی اور صحت اہم ہے۔ گھر میں رہ کر اگر تھوڑا بھی کھا لیں مگر وبا سے متاثر نہ ہوئے تو یہ کافی ہے۔ حکومت ضرورت مندوں کے گھروں کے کرایوں اور بجلی کے بلوں میں بھی ریلیف دے۔

ھمارے ملک میں تو میڈیکل کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر یہ وبا تیزی سے پھیل گئی تو اسپتالوں میں نہ بیڈ ہونگے نہ ہی ونٹیلیٹر۔ پھر تو وہ خوفناک صورت حال ہوگی کہ جہاں ایک طرف لوگ علاج کے لئے ترس رہے ہونگے اور دوسری طرف ڈاکٹر یہ فیصلہ کر رہے ہوں گے کہ کسے بچایا جائے اور کسے نہیں۔ اس وقت کے آنے سے پہلے ہمیں خود ہی دانشمندی سے احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اپنے آپ کو اور معاشرے کو بھی اس موذی مرض سے بچانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments