وزیر اعظم صاحب! ٹسوے نہ بہائیں



حال ہی میں نئے پاکستان کے خالق، جادو ٹونے اور جادو کی چھڑی کی مشترکہ کامیاب پروڈکشن کے شاہکار ہمارے وزیر اعظم کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں موصوف ہاتھ میں تسبیح اور عوام کو رولتے ہوئے انتہائی روہانسی شکل بنائے کرسی پر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ رونے کی اداکاری اور ریاکاری میں موصوف مکمل ناکام دکھائی دے رہے ہیں البتہ کیمرہ مین کا فن پورے جوبن پر ہے جنہوں نے شنید ہے زمین پر لیٹ کر پانچ کاوشوں کے بعد کپتان کی روہانسی سی ویڈیو بنا ہی دی۔

عجیب بات ہے کہ بیس ماہ میں ہی عوام کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کرنے والے کو آج خود مگر مچھ کے آنسوٶں کا سہارا لے کر اپنی بچی کھچی عزت کا بھرم قائم رکھنے کے ڈرامے رچانا پڑ رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی کپتان ہے جو پرانے پاکستان میں کھلکھلا کے ہنسا کرتا تھا اور نئے پاکستان میں کھل کے رونا چاہتا ہے۔ نہ جانے کپتان کے آنکھوں میں نظریہٕ ضرورت کے حامل آنسو دیکھ کر تین سو کنال کے محل میں فروکش اس ”درویش منش“ اور درد دل رکھنے والی خاتون کے دل پر کیا گزری ہو گی جو ایک کتے کی آنکھ میں بھی آنسو نہیں دیکھ سکتی ہے۔

ویسے تو سیاست کاری میں کپتان کے بہت سے عسکری اور غیر عسکری اتالیق رہے ہیں جنہوں نے انہیں امور جہا ں بانی و سلطنت کی جہانگیری کے رموز سکھائے ہیں تاہم عوام کے دلوں میں گھر کرنے کا جو نادر و نایاب نسخہ اب کی بار کسی ارسطو نے سجھایا ہے وہ تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ بے وقت آنسو بہانے پر تو غرناطہ کے آخری فرماں روا ابو عبداللہ محمد کو بھی اپنی عمر رسیدہ مگر جہاندیدہ و سنجیدہ ماں سے طنز سے بھرپور ایسا جملہ سننا پڑا تھا جو تاریخ میں امر ہو گیا۔

جو نسخہ کپتان کے مشیروں کی شاخ پر گل نو رستہ کی طرح پھوٹا ہے وہ چین کے عظیم عسکری مفکر سن زو کی 510 سال ق م لکھی جانے والی شہرہٕ آفاق کتاب ”آرٹ آف وار“ میں رقم ہے، سیاست و حکومت کے کامیاب طریقوں کے خالق چانکیہ کوٹلیہ کی نابغہٕ روزگار کتاب ”ارتھ شاستر“ میں مرقوم ہے اور نہ 1513 میں ”بادشاہ“ جیسی معرکتہ آلآرا تصنیف کے خالق نکولو مکیا ویلی نے کہیں بیان کیا ہے۔

پچاس لاکھ گھر ہوں، پانچ ارب درخت ہوں، ایک کروڑ نو کریاں ہوں، نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ ہو، روزانہ بارہ ارب کی کرپشن کا سد باب ہو، پندرہ سے بیس وزرا پر مشتمل مختصر کابینہ ہو، آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کی غلامی سے آزادی ہو، کلبھوشن کو پھانسی دینا ہو، مسئلہ کشمیر کا مثالی حل ہو، بی آر ٹی کی تعمیر ہو، کشکول کو توڑنا اور چوروں کو نہ چھوڑنا ہو; کپتان ہر معاملے میں فنکاریاں، اداکاریاں اور ریاکاریاں دکھاتا رہا، طرح طرح کے بہروپ بھرتا رہا، قسمیں کھاتا اور جھوٹے دعوے و وعدے کرتا رہا مگر وقت آیا تو ہر معاملے پر یو ٹرن لے کر پیٹھ دکھاتا رہا۔

سیاست فن ضرور ہے مگر منجھے ہوئے عوامی سیاسی فنکار کے لیے۔ جادو کی چھڑی کا سہارا لے کر اقتدار کو ہتھیانے والے وارداتیے کے لیے نہیں۔ کپتان صاحب! آپ نے تو فن سیاست کو بھی ایک گالی بنا لیا ہے۔ آپ نے سیاست میں کامیابی کے لیے مذہب کا استعمال کیا، فرقہ پرستی کو فروغ دیا، مزاروں اور درگاہوں کو سیاست کا اکھاڑہ بنایا، حساس اداروں کو استعمال کیا، درباروں کی چوکھٹوں کو سجدہ گاہ بنایا، قومی لباس اور قومی زبان کو استعمال کیا، ختم نبوت کے عقیدے کو استعمال کیا، تصوف اور روحانیت کو استعمال کیا، تسبیح کے دانوں کو استعمال کیا، ریاست مدینہ کے مقدس نام کو استعمال کیا اور غضب خدا کا اب مکار اور فریب کار آنسوٶں کا ہتھیار استعمال کر کے بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں بلبلاتے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

آپ جانتے ہیں کہ مصیبت کے وقت اہل خانہ کی ڈھارس بندھانے کی بجائے مصیبت کا رونا رونے اور سیاپا کرنے والے سربراہ کو کس نام سے یاد کیا جاتا ہے؟ جزوی لاک ڈاٶن ختم کر کے غریب عوام کو بے دست و پا کر کے کورونا کے سامنے پھینک کر بھی خود کو عوام کا سب سے بڑا بہی خواہ اور ہمدرد ثابت کرنے کا گھٹیا ڈراما کر رہے ہیں؟ کپتان صاحب! حقیقی لیڈروں کو اس طرح کی نو ٹنکیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کپتان صاحب! رونا ہی ہے تو اپنی نااہلی اور بے تدبیری پر رویے۔ امپائر اور دیگر ریفریوں سے مل کر پاکستان کی ترقی کو تنزل میں بدلنے کی مکروہ سازش پر رویے۔ شرح نمو کو 5.80 سے گرا کر 1.9 پر لانے کے ”کارنامے“ پر رویے۔ مہنگائی کو پانچ فیصد سے بیس فیصد پر لے جانے کی ”کارکردگی“ پر رویے۔ نیب سے گٹھ جوڑ کر کے بے گناہ سیاسی حریفوں کو جیلوں میں ٹھونسنے کے جرم پر رویے۔ چوروں، لٹیروں اور ڈاکوٶں کو کھلی چھوٹ دینے کے فیصلے پر رویے۔ کشمیر کے مسئلے پر سمجھوتا کرنے پر رویے۔ اپنی اس سماجی اور معاشی بے حسی اور سفاکی پر رویے جو آپ کو اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے دکھ درد میں بھی شرکت سے روکتی رہی ہے۔

اور جناب وزیر اعظم! خالی مصنوعی اور بناوٹی آنسو بہانے سے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ اگر اخلاق کی کوئی رمق بھی باقی ہے تو عوام کے روبرو آ کر ان سے معافی مانگیے کہ آپ کے اقتدار کی ہوس نے ملک کو پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ آپ مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اس لیے ہم تکلفاً بھی اقبال کی زبان میں آپ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اورذرا تھام ابھی
وزیر اعظم صاحب! کام نہیں کر سکتے تو رونے کی ناکام اور بھونڈی اداکاری بھی نہ کریں۔ کارکردگی نہیں دکھا سکتے تو ٹسوے بھی نہ بہایے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments