ادبی محبت نامے


آج کل جب کرونا کی وجہ سے زندگی کی بھاگ دوڑ کچھ کم ہو چلی ہے۔ اور جہاں ایسے بہت سارے کام جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہاں یہ بہترین موقع بھی ہے ایسے کام کرنے کا جو ہم کرنا چاہتے ہیں لیکن وقت ہاتھ نہیں لگتا۔ ذاتی طور پر میرے لئے یہ اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھنے کا بہترین موقع ہے۔ ایک کتاب جو میں نے انہی دنوں میں پڑھی۔ وہ ڈاکٹر خالد سہیل اور نعیم اشرف صاحب کی مشترکہ کتاب Literary love letters ہے۔

یہ کتاب جب کچھ دن پہلے مجھے ملی تو عنوان ہی پڑھنے کا تجسس بڑھانے کے لئے کافی تھا۔ لہذا مناسب موقع ملتے ہی پڑھنی شروع کی۔ یہ کتاب واقعی ہے تو محبت ناموں کا مجموعہ لیکن ان محبت ناموں کی نوعیت منفرد ہے۔ یہ خطوط پر مبنی کتاب ہے۔ جو دو ادیبوں کی دوستی، ذہنی ہم آہنگی، اور خیالات کا ایک دوسرے سے اظہار ہے۔ یہ خطوط ان دونوں ادیبوں کے ذاتی تجربات، اور احساسات کو چھوتے ہوئے دوسرے نامی گرامی مشرقی اور مغربی ادیبوں اور دانشوروں کے تعارف، ان کی زندگی کے حالات اور ان کی تخلیقات پر تبصرے اور تجزیے پر ختم ہوتے ہیں۔ ان تبصروں میں ان دو ادیب دوستوں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ایک ماہرانہ، لیکن سلیس انداز میں ان دانشوروں کا اور ان کی تخلیقات کا تعارف کرایا ہے۔

خطوط کی زبان میں ڈاکٹر خالد سہیل کی پہلی دو کتابیں، درویشوں کا ڈیرا، جو انہوں نے رابعہ الر با کے ساتھ، اور Two candles of peace ڈاکٹر کامران احمد کے ساتھ تخلیق کی ہیں۔ اور خوش قسمتی سے مجھے یہ دونوں کتابیں پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ خطوط کے وسیلے سے اس طرح کتاب مرتب کرنے کا یہ سلسلہ ایک نئی صنف اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اختیار کر چکا ہے۔ اور جہاں تک میری معلومات ہیں۔ یہ ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک منفرد تجربہ تھا، جو انھوں نے اپنے ساتھی ادیبوں کے ساتھ مل کر کیا۔

جو بہت کامیاب رہا۔ اور کافی سراہا گیا۔ خطوط کے انداز میں تحریر کردہ یہ کتابیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ اور میرے جیسے پڑھنے والے، جو ایک نشست میں ایک طویل تحریر پڑھتے ہوئے کچھ اس بچے کی سی کیفئیت سے گزرتے ہیں، جسے کسی ایک کھلونے کے ساتھ ایک کمرے میں بند کر کے، اور تھوڑی دیر میں نکالنے کا وعدہ کر کے کوئی بھول جائے۔ ایسے پڑھنے والوں کے لئے یہ بہترین کتابیں ہیں۔

یہ کتاب بھی پچھلی دو کتابوں کی طرح ایک پھولوں کا گلدستہ محسوس ہوتی ہے۔ جس میں ہر رنگ کے پھول اپنی انفرادی خوبصورتی اور خوشبو کے ساتھ پورے گلدستے کو حسین بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ قاری یکسانیئت کا شکار نہیں ہوتا، بلکہ اگلا خط پڑھنے کا تجسس اس کو پڑھتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

میں ڈاکٹر سہیل کو پچھلے چند سالوں سے جانتی ہوں۔ اور کبھی کبھار ان کی ادبی نشستوں میں شامل ہونے کا شرف بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ ان کی صحبت میں انسان کو ایک روحانی احساس ہوتا ہے۔ ان کی سادگی اور درویش منشی انسان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ان کے ساتھ خطوط کا ایک مختصر تجربہ میں بھی کر چکی ہوں۔ جس کا لطف اس بات میں ہے کہ خط کے جواب میں انسان کے اندر کا چھوٹا یا بڑا ادیب جاگ جاتا ہے۔

نعیم اشرف صاحب سے ابھی میری ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کے خطوط کے ذریعے ان کی ادب میں دلچسپی، اور مطالعے کی گہرائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور مجھے ان سے ملاقات کی پوری امید ہے۔ کیونکہ میرا بھی اسلام آباد سے گہرا تعلق ہے۔

رابعہ الربا، جن کے ساتھ ڈاکٹر سہیل نے ”درویشوں کا ڈیرا“ کتاب لکھی ہے، انھوں نے نعیم اشرف صاحب کو ڈاکٹر سہیل سے متعارف کروایا۔ بعد میں نعیم اشرف صاحب نے درویشوں کا ڈیرا کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا جو ”Dervish ’s Inn“ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ یوں رابعہ نے ان دونوں مصنفین کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیا۔ جس کے اظہار تشکر میں اس کتاب کا انتساب رابعہ الربا کے نام کیا گیا ہے۔

جن شخصیات کو اس کتاب میں متعارف کیا گیا ہے۔ ان میں پاؤلو کوایلہو، مولانا رومی اور شمس تبریز، ساقی فاروقی، صدف رضا، الف شفک، ورجینیا وولف، ارنیسٹ ہمنگوے، ژاں پال سارتر، ہر من ہیس، جارج آر نیل، رنجیت سنگھ اور خلیل جبران شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ مصنفین ہیں جن کا کام ادب کے معروف کلاسیکی مجموعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کتاب کی شکل میں قاری کے لئے ان ادبی تخلیقات کی ایک لسٹ فراہم کردی گئی ہے جو شاید ہر ایک کی نظر سے ایک ایک کر کے تو کہیں گزریں، لیکن اس طرح ایک ہی جگہ پوری معلومات اور دو تجربہ کار ادیبوں کی رائے سمیت نہ مل سکیں۔

کتاب کے آخر میں ڈاکٹر سہیل کے سبق آموز اقوال سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں۔ اور اختتام ان کی مختصر لیکن خوبصورت نظم پر ہوتا ہے۔ جو ان کی شاعری کے مجموعے ”آزاد فضائیں“ سے لی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں مجھے یہ نظم اس چھوٹے اور نازک پھول کی طرح محسوس ہوئی جو کسی خوبصورت تحفے کو کسی کو پیش کرنے سے پہلے اس پر سجا دیا جاتا ہے۔ یہ نظم کچھ یوں ہے۔

”ڈر“
باہر کے اس شور میں خالدٓ
ہم کو ڈر ہے
اندر کی موسیقی اک دن
دب جائے گی
یہ کتاب ادب کو زندہ کرتی ہے۔ اور یہ ان دونوں مصنفین کا اپنے قارئین کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے جس کے لئے ہم ان کے بہت شکرگزار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments