کورونا کے عہد میں سائنس اور عقیدے کی بحث


انسان لاکھوں برس سے آسمانی بجلی سے خوفزہ ہوتا چلا آیا ہے۔ اور خوفزدہ کیوں نہ ہو آسمانی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے اور یہ جس چیز پہ گرتی ہے اسے جلا کے راکھ کر دیتی ہے۔ قدیم یونانی دیو مالا کے مطابق زیئس دیوتا آسمانی بجلی اور چمک کا مالک تھا اور وہ اس کے ذریعے اپنا جاہ وجلال دکھاتا تھا۔ انسان آسمانی چمک سے اسی طرح لرزتا رہا اور دیوتاؤں سے پناہ مانگتا رہا یہاں تک کہ اٹھارویں صدی میں بینجمن فرینکلن نے ثابت کیا کہ آسمانی بجلی بھی ایک طرح کی بجلی ہی ہے۔ 1752 میں بینجمن نے دیوتا سے اس کی یہ طاقت بھی چرا لی اورلائٹننگ راڈ بنایا جس کی مدد سے آسمانی بجلی سے بچا جا سکتا ہے۔ انسان اسی طرح سائنس کی مدد سے رفتہ رفتہ فطرت کے راز آشکارکرتا رہا ہے اور فطرت کی طاقتوں کو اپنا غلام بناتا آیا ہے۔

زمانہء قدیم سے ہی عقیدے اور سائنس کی بحث جا ری ہے اس پر پوری دنیا میں مباحث بھی ہوئے اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ سائنس کی بنیاد ایک اعتراف پہ ہے اور وہ یہ کہ ہم نہیں جانتے۔ یہ اعتراف بڑی اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہے کہ جب ہم مانیں گے کہ ہم نہیں جانتے تبھی ہم میں جاننے کی لگن پیدا ہو گی۔ جیسا کہ سقراط نے کہا تھا کہ میں سب سے عقلمند ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں نہیں جانتا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ سائنس یہ بھی سمجھتی ہے کہ نیچرل دنیا اور کائنات کے بارے میں جانا جا سکتا ہے اور تاریخ بذات خود اس کی گواہ ہے۔ دوسری جانب عقیدہ یا تو عقل کل ہونے کا دعوے دار ہے (جیسے دنیا بیل کے سینگوں پر ٹکی ہے ) یا پھر جو چیز عقیدے نے بیان کی ہے بس اتنا علم ہی کافی ہے اس سے زیادہ نہ تو انسان کو ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی خواہش کرنا چاہیے۔

سائنس ایک ہی ہے جو تجرباتی سطح پر تصدیق شدہ ہو سکتی ہے اس کے مقابلے میں عقائد ہزاروں ہیں اور سائنسی اصولوں پر انہیں پرکھا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر سنتے ہوں گے کہ لوگوں نے اپنا عقیدہ تبدیل کر لیا مگر کسی نے اپنی سائنس تبدیل کر لی یہ خبر آپ نے نہ پڑھی ہو گی۔

عقیدہ یقین ہے، سائنس سوال ہے۔ یقین کے بعد سوال کی گنجائش نہیں رہتی جبکہ سوال کی کوئی انتہا نہیں۔ ایک سوال کے بعد دوسرا پھر تیسرا سوال اور ان کی تلاش میں علم کا حصول جاری رہتا ہے۔ بہت سے لوگ مذہب کی فلاسفی پہ بات کرتے ہیں جبکہ عقیدے کا کوئی فلسفہ نہیں ہوتا۔ فلسفہ سراپا سوال ہے اوراسکی انتہا نہیں ہوتی جبکہ عقیدے میں محدود مارجنز ہوتے ہیں اور ایک دائرے سے باہر جا کر نہیں سوچا جا سکتا۔

آج انسانیت کو کورونا کا مسئلہ درپیش ہے، دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے انداز میں اسے ایک عذاب قرار دے رہے ہیں وہ اس میں مبتلا ہونے والے لوگوں کو گناہگار بھی تصور کر رہے ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سائنس جلد اس کا علاج دریافت کر لے گی اور اس طرح دیوتاؤں کی طرف سے نازل کردہ اس عذاب کا بھی آسمانی بجلی کی طرح علاج دریافت کر لیا جائے گا۔

انسان پیدائشی طور پر جاہل واقع ہوا ہے لیکن پھر وہ رفتہ رفتہ علم حاصل کرتا ہے اور یہ علم اسے طاقتور اور عقلمند بناتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ علم پھیلنے کی رفتار جہالت کے پھیلنے کی رفتار سے کافی کم ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments