کرونا، الہام اور الحاد!


یہاں خرقۂ سالوس میں چھپے مہاجن کا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ یہاں مقصد ان فکری مغالطوں کو دُور کرنا ہے جو اہل الہام اور الحاد کے مابین مکالمے میں سد راہ ہیں۔ ایک ملحد اگر مخلص ہے تو میرے نزدیک قیمتی روح ہے، میں اسے متلاشی ذہن اور متجسس روح سمجھتا ہوں۔ اگر ملحد ضد پر اُتر آئے تو کٹھ ملا سے بدتر ہے۔ دین کے داعی کا مدعا اگر مفاد پرستی ہے تو میرے نزدیک وہ دشمنِ دین ہے۔

اہلِ الہام اور الحاد دونوں ایک مشترک فکری غلطی کرتے ہیں، دونوں ہی ایمان کی دلیل عالمِ شہود میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل ہردلیل ایک مخصوص دائرۂ کار کے اندر ہی وزن رکھتی ہے، فزکس کے اصولوں پر کیمسٹری نہیں پڑھی جا سکتی، اکنامکس کے کلیے طب میں بطور دلیل کام نہیں آتے۔ انسانی دنیا میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو دلیل اور منطق کے بغیر بھی مانے جاتے ہیں، یہ علوم صرف اساتذہ کے ہونے سے پائے جاتے ہیں۔

معجزۂ فن رنگ کا ہو یا خشت و سنگ کا یا پھر کوئی نغمۂ حرف و صوت ہو ’ان کی نمود کسی دلیل کی نہیں بلکہ کسی جوہرِ قابل کے خونِ جگر کی محتاج ہے۔ ہمارے اکثر فنون لطیفہ کسی دلیل اور مفاد کے محتاج نہیں بلکہ ان کی دلیل فن کار کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ کیا ہم مذہب کو زندگی میں وہ اہمیت بھی دینے کے لئے تیار نہیں جو کسی جمالیاتی علم کو دیتے ہیں؟ یہ تو شوق اور پھر ذوق کا سودا ہے! ایمان دلیل کا نہیں دل کا سودا ہے۔ دل کی دلیل ظاہر میں تلاش کرنا‘ زندگی کو بدمزہ کرنے کی ترکیب ہے۔

ایک دلیلِ کم نظری یہ بھی ہے کہ ہم دین اور سائنس کا تقابل پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، اگر سائنس سے دلیل مل گئی تو تالیاں پیٹ لی جائیں، اگر سائنس سے عدم تطابق نظر آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کی تلاش سائنس کا دعویٰ ہی نہیں، اور اسباب کی دنیا میں اپنے ماننے والوں کو اسباب سے بے نیاز کر دینا کبھی مذہب کا دعویٰ نہیں رہا۔ دیگر مذاہب کے بارے میں تو مجھے کچھ اتنا درک نہیں لیکن میرا دین ’دینِ فطرت ہے۔ میرے دین میں دوا کو سنت بتایا گیا ہے، مجھے بتایا گیا ہے کہ قوانینِ فطرت اللہ کی سنت ہیں اور اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔

یہاں مجھے بتایا جاتا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ یہاں مجھے حکم ہے کہ جس جگہ وہا پھیل چکی ہو‘ وہاں مت جاؤ اور اگر کسی وبا زدہ علاقے میں پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو۔ میرے دین میں مفاد عامہ کا اتنا اہتمام ہے کہ اگر بارش ہو رہی ہو تو حکم ہے کہ نماز گھر میں پڑھ لو۔ نماز باجماعت میں شامل ہونے کے لئے دوڑ کر شامل ہونے سے منع کر دیا گیا کہ دوڑتا ہوا اِنسان اپنی تکریم سے دُور ہو جاتا ہے۔

یہاں تکریمِ انسانی کا یہ عالم ہے کہ ہاد ئی عالمﷺ کے فرمان کے مطابق مومن کی جان، مال اور عزت کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ میرا دین مجھے تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ صرف صفائی ہی نہیں بلکہ طہارت کے تصور سے بھی مجھے روشناس کرواتا ہے۔ طہارت سے آشنا جسمانی صفائی سے کبھی غافل رہ نہیں سکتا۔ میرا دین مجھے جرم سے بھی پہلے گناہ کے تصور سے آشنا کرتا ہے۔ جو گناہ سے بدک گیا وہ جرم کی دنیا میں کبھی داخل نہ ہو گا۔

فلسفے کو سائنس کی دنیا سے کوئی دلیل میسر آ جائے تو پھولے نہیں سماتا۔ کلیسا و حرم کیا ویران ہوئے، اہلِ الحاد کے ہاں شادمانی کا سماں ہے۔ کرونا وائرس نے گویا الحاد کو coronate کر دیا ہے۔ اس کے برعکس دین کسی سائنسی دلیل سے بے نیاز ہے۔ دین کا دعویٰ ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی دنیا کی خبر دیتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے، جہاں تمہاری مادی عقل کی رسائی نہیں۔ اور یہ کہ تم صرف جسم ہی نہیں روح بھی ہو، تماری روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں، تمہاری روح کی ربوبیت کے لئے ہم تمہیں اپنے انبیا کے ذریعے تعلیم و تربیت دیں گے۔ اس طرح مجھے دین تکریمِ انسان کا ایک معاملہ نظر آتا ہے۔ ایک انسانؐ پر یقین ہمیں عالمِ غیب سے متعلق کر دیتا ہے۔

دین کا ماخذ باطن ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہمارے باطن کو خطاب کرتا ہے، دین ظاہر میں تبدیلی بزورِقوت نہیں چاہتا بلکہ بذریہ ترغیب و تفکر کرتا ہے۔ میرا دین مجھے جبر نہیں سکھاتا۔ نہ ماننے والوں کے ساتھ میرے مکالمے کے آداب ”وجادلھم بالتی ہی احسن“ سے شروع ہوتے ہیں اور کسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہوئے بغیر ”لا اکرہ فی الدین“ اور ”لکم دینکم ولی دین“ پر میرا ان کے ساتھ مکالمہ ختم ہو جاتا ہے۔ میں دینِ فطرت پر کاربند ہوں۔

ایمان ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے۔ یعنی ایسی دنیا کی اطلاع پر یقین جہاں ہمارے حواسِ خمسہ اور عقل کی رسائی نہ ہو۔ ایمان کی دلیل عالمِ شہود ( ٹائم اینڈ اسپیس ) میں میسر نہ آسکے گی۔ اگر ایمان کی دلیل عالمِ ظاہر میں ظاہر ہوگئی تو انبیا کی حجت ہی باقی نہ رہے گی۔ ایمان صفات پر نہیں بلکہ ذات پر ہوتا ہے۔ ایمان ذات سے ذات کا سفر ہے۔ ایمان کی حقیقت رسولﷺ کی ذات پر ایمان ہے۔ جسے اس ذاتؐ سے قلبی تعلق و باطنی تمسک میسر نہیں ’اس کے لئے ایمان کا لفظ ایک ڈکشنری میں درج کسی متروک لفظ زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے اے صاحبان غور و فکر! ایمان کی دلیل باہر کی دنیا میں تلاش کرنے کا دھندا نہ پکڑیں، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ ایمان کی تلاش ہے تو اپنے دل میں جھانکیں، دل سے جواب آئے گا۔ اور ضرور آئے گا۔ ہاں! مگر دلِ زندہ سے!

ہر صاحبِ دل جانتا ہے کہ انسان محض جسم اور دماغ کا مجموعہ ہی نہیں۔ انسان کی زندگی محض جبلتوں کے تعامل، عمل اور ردِ عمل اور سبب اور نتیجے تک محدود نہیں، اسے رہنے کے لیے صرف روٹی اور مکان کی نہیں بلکہ ایک خوشگواراحساس اور خوبصورت خیال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

علاج اور شفا میں فرق ہوتا ہے۔ علاج تو لیبارٹری سے دریافت ہو جائے گا ’شفا اور شفاعت کے لئے انسان کو انسان کے پاس جانا ہوگا۔ انسانِ کاملﷺکے پاس!

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments