طاعون عمواس سے کرونا تک :محدثین و علما کا رویہ


مسلمانوں کو 18 ہجری میں پہلی مرتبہ کسی وبائی بیماری کا سامنا ہوا فلسطین میں قدس اور رملہ کے درمیان واقع عمواس شھر میں طاعون کی وبا نے سر اٹھایا جس نے بڑی سرعت کے ساتھ پورے شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا یہ وہ زمانہ تھا جب شام میں فتوحات اسلامی کا سلسلہ جاری تھا تاریخ کی کتابوں میں اس وبا کو طاعون عمواس کا نام دیا گیا ہے، ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور شرجیل بن حسنہ جیسے صحابیوں سمیت ہزاروں مسلمان طاعون کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ گئے وبائی مرض کے اثر سے اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی اموات نے عام مسلمانوں کے اذہان کو بہت متاثر کیا۔ سب جاننا چاہتے تھے یہ وبا ہے کیا اور اس کے متعلق ہمارے دین یعنی اسلام کا کیا نقطہ نظر ہے؟ ایسے ہی بہت سے سوالوں کے جواب دینے کے لئے مسلمان علما بالخصوص محدثین آگے بڑھے اور رسول اللہ ص کی احادیث کے حوالے دے کر کچھ نے کہا یہ اللہ کا عذاب ہے کچھ نے کہا طاعون دراصل ”جن“ کے انسانی جسم میں برے اثرات کا نتیجہ ہے اور بعض نے طاعون کو اللہ کی رحمت قرار دیا!

جب لوگوں نے سوال کیا کہ اس وبا سے تو غیر مسلم بھی مر رہے ہیں تو جواب آیا طاعون مسلمانوں کے لئے اللہ کی رحمت جبکہ کافروں کے لئے عذاب ہے!

طاعون عمواس کے متعلق نقل ہونے والی احادیث کی بنیاد پر بعد میں اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئیں سب سے پہلی کتاب ابن ابی الدنیا (م 281 ہ) نے ”کتاب الطواعین“ کے نام سے لکھی۔

اور جب آٹھویں صدی ہجری میں ایک بار پھر مسلمانوں کو طاعون کی بیماری کا سامنا ہوا تو مذکورہ احادیث کو بنیاد بنا کر اس موضوع پر مزید بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئیں یہاں تک کہ دسویں صدی ہجری تک طاعون کے متعلق اچھا خاصا مواد جمع ہو گیا۔

ابن حجر (م 852 ہ) کی کتاب بذل الطاعون فی فضل الطاعون مفصل ترین کتاب ہے جس کو بعض اضافوں کے ساتھ دسویں صدی کے معروف عالم دین علامہ جلال الدین سیوطی نے مرواہ الواعون فی اخبار الطاعون کے نام سے مرتب کیا احتیاطی تدبیر کے طور پر یہ بتانا ضروری ہے کہ طاعون کے متعلق محدثین و علما کے رویے کو جاننے کے لئے جن احادیث یا روایتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اسی کتاب سے لی گئی ہیں۔

ان کتابوں میں طاعون سے متعلق احادیث و روایات کو جمع کیا گیا کیونکہ اس بیماری سے متعلق کوئی چیز قرآن مجید میں موجود نہیں تھی اس لئے مسلمانوں نے کوشش کی کہ احادیث و روایات کو بیان کرنے کے ذریعے مسلمانوں کے اذہان کو شکوک و شبہات سے پاک کیاجائے اس امر کے حصول کے لئے من گھڑت باتوں کو رسول اللہ ص کی طرف نسبت دی گئی طاعون کے متعلق محدثین و علما کی طرف سے نقطہ نظر اختیار کیا گیا کہ یہ وبا اللہ کا عذاب ہے او ر اس حوالے سے اطبا کے نقطہ نظر کو دہری نظریہ قرا ر دے کر مسلمانوں سے دینی حکم پر عمل کرنے کا کہا گیا کیونکہ محدثین و علما کی نظر میں جب اللہ تعالی کا عذاب آتا ہے تو طب ناکام ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا اگر ایسے حالات میں کوئی علاج کا دعوی کرے تو وہ دہریہ ہو گا!

امام بخاری، مسلم و احمد بن حنبل کی طاعون کے عذاب ہونے کے متعلق حدیث کو دلیل کے طور پر بیان کیا گیا جس میں طاعون کو اللہ کا عذاب قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ 18 ہجری سے پہلے مسلمانوں کو طاعون کا کوئی تجربہ نہیں تھا البتہ اس حوالے سے کچھ واقعات ان کے اذہان میں ضرور تھے مثلاً حضرت عائشہ (رض) کہتی تھیں کہ عرب کے لوگ شوال کو منحوس مہینہ سمجھتے ہوئے اس میں نکاح نہیں کرتے تھے انہوں نے سن رکھا تھا کہ پہلے دور میں شوال میں طاعون کی بیماری پھیلی تھی، اسی مہینے میں میری شادی رسول اللہ ص سے ہوئی تو یہ تاثر زائل ہو گیا۔

اسی طرح اسلام کے ابتدائی سالوں میں مدائن میں آنے والی طاعون شیرویہ یا ادجر کا دھندلا سا تصور بھی مسلمانوں کے اذہان میں موجود تھا طاعون کی تاریخ سے متعلق ابن حجر اور علامہ سیوطی کی اخبار بنی اسرائیل کی تاریخ سے ماخوذ ہیں کیونکہ ابتدائی دور میں مسلمانوں کا تاریخ کا ذریعہ یا تو تورات تھی یا یہودیوں کی زبانی روایت۔ مسلمان مذکورہ منابع میں صرف اسی وقت شک کرتے تھے جب کوئی بات ان کے دینی مسائل کے خلاف ہوتی مذکورہ منابع کے علاوہ مسلمانوں کے پاس تاریخ کا کوئی منبع نہیں تھا وہ تورات کی روایات کو عمدا یا سہوا سیدھا رسول اللہ ص سے منسوب کر دیتے تھے ایسی روایات اور قصوں کو اسرایئلیات کہا جاتا ہے۔

طاعون کے عذاب ہونے کی دوسری روایات میں زنا، کم تولنے اور فحشا کی ترویج کو اس وبا کے عوامل کہا گیا ہے طاعون کا ایک عامل جن کو قرار د یا جاتا ہے یعنی جن جب انسان کے جسم پر کوئی اثر چھوڑنا چاہتا ہے تو وہ جسم میں داخل ہو جاتا ہے جس کا اثر باطن سے ظاہر ہوتا ہے۔ ابن قیم کا بھی یہ نظریہ ہے کہ خدا نے جن کو یہ طاقت دے رکھی ہے کہ جب انسان انحراف کا شکار ہو جائے تو ا س کے جسم میں داخل ہو کر اسے نقصان پہنچائے۔

طاعون کی وبا میں جب مسلمان مر رہے تھے تو اس وبا کو عذاب قرار دینے کے بعد ایک اور نظریہ یا عقیدہ بھی سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ طاعون اللہ تعالی کی رحمت ہے اور جو طاعون سے مرے گا وہ شہید ہو گا۔ اس عقیدے کے اثبات کے لیے بھی احادیث نبوی ص کا سہارا لیا گیا اور کہا گیا کہ آنحضرت ص نے اپنی امت کے لئے طاعون کی بہت پہلے پیش گوئی فرما دی تھی مثلاً حضرت معاذ بن جبل کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ص سے سنا تم لوگ ملک شام فتح کرو گے وہاں ایک بیماری ہے جو لوگوں کو ہلاک کر دیتی ہے وہاں جانے والوں کی قسمت میں شہادت ہے ان کے اعمال کا تزکیہ ہو گا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جو طاعون سے مرے شہید ہے الطاعون شھادۃ لکل مسلم۔ جو کوئی طاعون سے بھاگے وہ ایسا ہے جیسے میدان جنگ سے بھاگے۔

جس وقت شام طاعون کے حملے کی زد میں تھا حضرت عمر شام کے ارادے سے نکلے راستے میں وبا کا پتہ چلا تو واپس آ گئے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اس موقع پر حدیث نقل کی کہ جب طاعون کسی جگہ آ جائے تو مقامی لوگ وہاں سے نہ نکلیں اور باہر کے لوگ وہاں داخل نہ ہوں جو موجود ہیں مرنے کی صورت میں شہید ہو ں گے، حضرت عمر شام کے سفر سے واپس آئے تو ابو عبیدہ نے کہا کیا اللہ کی رضا سے بھاگتے ہو؟ تو حضرت عمر نے کہا خدا کے حکم سے خدا کے حکم کی طرف بھاگتا ہوں۔

حضرت عمر سے روایت ہے شہدائے جنگ اور طاعون سے مرنے والے جنت میں مرتبے میں سب برابر ہوں گے۔
18 ہجری میں طاعون کے عذاب یا رحمت ہونے کے حوالے سے عمرو بن عاص اور حضرت شرجیل بن حسنہ میں اختلاف تھا جب شام میں طاعون پھیلی تو عمرو بن عاص نے کہا رجس فتفرقو عنہ یہ بری بلا ہے سب متفرق ہو جاؤ لیکن شرجیل بن حسنہ نے کہا میں صحابی رسول ص ہوں اور عمرو بن عاص گمراہ ہے طاعون رحمت اور رسول اللہ ص کی دعا ہے اس سے صالحین کی موت ہوئی ہے۔

علامہ سیوطی نے اپنی کتاب میں پورا باب قائم کیا ہے جس میں عمر و بن عاص کے موقف کو رد کرنے کے ضمن میں صحابہ کی رائے ذکر کی ہے حضرت عبیدہ بن جراح کی موت کے بعد قیادت حضرت معاذ بن جبل نے سنبھالی تو انہوں نے طاعون کو رسول اللہ ص کی دعا و رحمت قرار دیتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے طاعون سے موت کی دعا کی۔ وہ طاعون کو عذاب سمجھنے والوں سے کہتے تھے تم اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت کو کسی قوم پر اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہو؟ یہ اللہ کی رحمت ہے جسے اللہ نے تمہارا مقدر کیا ہے اور تم سے مخصوص کیا ہے۔

گو کہ صحابہ یا بعد والے علما و محدثین میں طاعون کے رحمت یا عذاب ہونے کے متعلق اختلاف تھا لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ اس معاملہ پر اطبا کا نقطہ نظر سرے سے باطل ہے۔ محدثین کا نظریہ تھا کہ تمام علوم کا منبع حدیث ہے جب حدیث میں آ گیا کہ طاعون عذاب ہے اب اطبا کی طاعون کے حوالے سے کوئی بھی بات باطل تصور ہو گی۔

ابن قیم نے طاعون کے متعلق طبی نظریہ کے رد میں دلائل دیے اطبا کا کہنا تھا کہ طاعون ایک زہریلا مادہ ہے جو انسان کے جسم میں ورم ایجاد کرتا ہے اور اس کی پیدائش کا سبب فاسد ہوا ہے ابن قیم نے اس نظریہ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اگر طاعون کی وجہ فاسد ہوا ہوتی تو اس بیماری سے انسان اور جانور یکساں طور پر متاثر ہوتے لیکن طاعون کی صورت حال تو یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہی خاندان کے لوگ اس وبا سے مر جاتے ہیں جبکہ ہمسائے بالکل محفوظ رہتے ہیں اسی طرح ہر طبیعی مرض کی کوئی دوا ہوتی ہے لیکن اس مرض کی کوئی دوا نہیں ہے طاعون کوئی طبیعی امر نہیں ہے اس کا علاج صرف اسی کے پاس ہے جس نے اسے خلق کیا ہے علامہ ابن قیم سے ملتی جلتی بات حال ہی میں یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکر م نے بھی کی ہے۔

ابن حجر نے بھی طاعون کے حوالے سے ڈٹ کر اطبا کی مخالفت کی ان کے نزدیک اطبا طاعون کے طبیعی بیماری ہونے پر اس لئے اصرار کرتے ہیں کیونکہ وہ خزالجن یا طعن الجن (جن کے انسانی جسم پر اثرات) کو قبول نہیں کرنا چاہتے ابن حجر نے ”فلما وردالشرع و جا نھر اللہ، بطل نھرا لعقل“ کہہ کر بات ہی ختم کر دی (جہاں شرع آ جائے اور نہر الہی جاری ہو جائے وہاں عقل کی نہر بند ہوجاتی ہے ) ۔

ابن حجر اور علامہ سیوطی طاعون کے عذاب یا رحمت ہونے کے حوالے سے کسی ایک چیز کو اختیار نہیں کر سکے اسی لئے طاعون کے عذاب ہونے کی احادیث کو نقل کیا ہے تو ساتھ اس وبا کے رحمت ہونے کی احادیث کو بھی نقل کیا ہے۔

دسویں صدی تک طاعون کے متعلق جمع ہونے والی احادیث کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں بیان ہونے والے مطالب کا منبع طاعون عمواس ہے اگر 18 ہجری میں طاعون کی وبا نہ آتی تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ طاعون کے متعلق جتنی احادیث و روایات موجود ہیں وہ نہ ہوتیں بزرگ صحابہ کی طاعون سے موت کی توجیہ کرنے کے لئے یہ سارے مطالب گھڑے گئے۔

یعنی اگر صحابہ جنگ میں شہید نہیں ہو سکے تو طاعون کا شکار ہو کر شہید ہو گئے ہیں اور اس طاعون کا شکار ہوئے ہیں جس کو اللہ کے رسول نے اپنی امت کے لئے مانگا تھا! روایات میں ہے کہ دجال اور طاعون کسی بھی صورت مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر طاعون مدینہ کے لئے بری ہے تو اسے شام کے لئے بھی برا ہی ہونا چاہیے علما و محدثین کے بقول اگر طاعون رحمت ہے تو مدینہ اس رحمت سے محروم کیوں؟

علما و محدثین نے اس اعتراض کا جواب دیا اور فرمایا کہ کیونکہ شہادت صرف طاعون کی موت میں ہی منحصر نہیں ہے اس لئے اہل مدینہ کے شہادت اور رحمت تک پہنچنے کے لئے دوسرے راستے کھلے ہیں ایک جواب یہ دیا گیا کہ کیونکہ مدینہ چھوٹا ہے اگر یہ رحمت مدینہ پر برس جائے تو اس شہر کے سرے سے ختم ہونے کا خطرہ ہے!

تھوڑے عرصہ کے بعد یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا مکہ بھی طاعون ایسی رحمت سے محروم ہے تو مدینہ کے حوالے سے دیے گئے جواب ہی دہرائے گئے طاعون کو عذاب یا رحمت کہنے والوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اس وبا سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں موت یقینی امر ہے اس کا مطلب ہے کہ پھر طاعون سے بچاؤ کے لئے دعا کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے طاعون عمواس کے حوالے سے کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جس میں طاعون سے بچاؤ کے لئے دعا کا ذکر ہو ابو عبیدہ کی موت کے بعد جب حضرت معاذ بن جبل نے کمان سنبھالی تو لوگوں نے ان سے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ طاعون رجز نہیں ہے بلکہ رحمت ہے۔

جب محدثین و علما طاعون کے عذاب یا رحمت ہونے کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کے صحیح ہونے پر اصرار کر رہے تھے اس وقت طبی نقطہ نظر کو ماننے والے لوگ بھی تھے لیکن جیسے ہی کوئی مسلمان طبی نقطہ نظر کے حوالے سے بات کرتا تو اس کو دہری طب کا حامی قرار دے دیا جاتا آیا علما و محدثین کا نقطہ نظر ہی اسلام کا نقطہ نظر تھا۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ علما و محدثین نے اپنے فہم کو دین کا نام دیا اگر کسی نے طاعون کو عذاب کہا تو بعض کمزور احادیث کو سامنے رکھ کر ایسا کہا اور اگر کسی نے رحمت کہا تو بھی اس نے کسی روایت یا حدیث کو سامنے رکھ کر یہ نقطہ نظر اختیار کیا۔ یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں کہ طاعون کے حوالے سے جو کچھ محدثین و علما نے کہا وہی حقیقی اسلام ہے جب علما ومحدثین طاعون کے حوالے سے کتابیں لکھ رہے تھے اس وقت اطبا بھی اپنا فرض نبھا رہے تھے اور اپنے اپنے زمانے کے وسائل کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو مشکل سے نکالنے کی سبیل کر رہے تھے۔ قرآن و سیرت نبوی ص کی روشنی میں بلا شبہ یہی لوگ اسلام کے حقیقی پیغام کے ترجمان تھے۔

آج کرونا کی صورت حال میں بعض علما کے طرز عمل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کس طرح اسلام کا نام لے کر انسانی شعور کی توہین کرنے میں بالکل عار نہیں۔ ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ کچھ بھی کر لیا جائے، موت سے نہیں بچا جا سکتا۔ ان کو بھی آج وہ لوگ دہریے دکھائی دے رہے ہیں جو احتیاطی تدابیر کے پیش نظر لوگوں کو مذہبی مقامات پر اجتماع کرنے سے روک رہے ہیں۔ کرونا عذاب ہے، رحمت ہے، اغیار کی سازش ہے یا کچھ اور جو بھی ہو موجودہ حالات میں کچھ لوگوں کے رویے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بعض علما مسلمانوں کے لئے عذاب ضرور ہیں جو کبھی جہاد کا علم اٹھا کر سادہ لوح لوگوں کے لئے عذاب ثابت ہوتے ہیں ؛کبھی درباری بن کر طاقت کے اصلی مراکز سے وابستہ ہو کر عوا م کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں تو کبھی کرونا کی وبا میں ٖ غیر ذمہ دارانہ رویہ سے سادہ لوح مسلمانوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر عذاب ثابت ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments