کرونا پر بات کریں تو کیسے؟



میں نے اپنی چوبیس سالہ قلمی زندگی میں، کبھی اپنے آپ کو اتنا سیلف سنسرشپ کا شکار نہیں پایا، جتنا آج کل سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ اپلوڈ کرتے ہوئے محسوس کرتا ہوں۔ چاروں اطراف غصے اور انا سے سرشار ہجوم جو کہ ذاتی پسند اور آراء کو دوسروں پر مسلط کرنے کی خاطر گالیاں، فتوے اور پتھر بازی تک سب کچھ تیار رکھے ہوئے ہے۔

اگر میں قہوے اور جڑی بوٹیوں سے کرونا کے کامیاب علاج کے مضحکہ خیز دعوے پر رائے کا اظہار کروں تو کیسے کروں؟ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ نیم حکیموں کے پیروکاروں کی جانب سے ایسے ایسے کمنٹس آئیں گے، جن کا جواب مجھے میڈیکل سائنس کی کسی کتاب میں نہیں ملے گا۔

اگر میں، ایک گھنٹہ پہلے پیدا ہو کر کرونا علاج بتانے والے بچے کے تذکرہ پر عقل اور استدلال کا استعمال کرنے کی بات کروں تو کیسے کروں؟ کیونکہ کہیں سے میرے عقیدے پر سوالات بھی اٹھ سکتے ہیں۔

اگر میں کرونا خطرے کے باعث دین کی تبلیغ مٶخر کرنے کی بات کرونگا یا وبا سے بچاؤ کے لیے کسی پیر مرشد کی دعاٶں کا انکاری بنوں گا، تو تفرقہ پسندی اور مذہبی منافرت پھیلانے کا دیسی ساخت کا لیبل بھی تیار رکھا ہوا ہے۔ آخر میں حقائق سے انصاف کرنے کی کوشش کیسے کروں گا؟

میں مذہبی اجتماعات پر پابندی اور باجماعت نماز کے متعلق بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ہچکچاتا ہوں کیونکہ بچپن سے میں جس قسم کے مذہبی ماحول میں پلا بڑھا ہوں، اس میں تو ایسی بات کرنے والے کو واجب القتل بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ میں قرآن، سنت اور احادیث کی روشنی میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا، جس سے معاشرے کی اکثریت متفق نہ ہو۔

میں سندھ حکومت کی جانب سے لاک ڈاٶن اور سماجی فاصلہ قائم کرنے کے اقدامات کو زیادہ سراہنے سے بھی ججھک رہا ہوں، کیونکہ کہیں سے بھی مجھے سندھ حکومت کا تنخواہ دار قرار دیا جا سکتا ہے اور میں تاحیات اس الزام تلے دب سکتا ہوں۔

میں لاک ڈاٶن کی وجہ سے غریب طبقے کی مشکلات پر بھی زیادہ بول نہیں سکتا کیونکہ سندھ حکومت کی جانب سے مراعات یافتہ قلمکار، مجھے پی ٹی آئی کا کارکن ثابت کرنے میں ذرا سی بھی دشواری محسوس نہیں کریں گے۔ یا پھر ان کی پروپیگنڈہ کے مارے لوگ، مجھے وفاق کا خفیہ ایجنٹ بنا کر غدار وغیرہ جیسے القابات سے بھی نواز سکتے ہیں۔ چنانچہ میں بہت محتاط ہوں، حتی کہ سندھ حکومت کی جانب سے اربوں مالیت کا راشن، راتوں رات تقسیم کرنے کے دعوے پر بھی زیادہ سوالات نہیں اٹھا سکتا۔ کیونکہ یہاں جس قسم کا میڈیا ٹرینڈ چل رہا ہے، اس کی رو سے، کرپشن مخالف بات کرنے والے کو پی پی اور ن لیگ مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ جسے جمہوریت مخالف قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ درپردہ آمریت کے نفاذ کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے۔

میں کرونا کے خطرے کے باعث سماجی فاصلہ رکھنا چاہتا ہوں مگر اسے عملی جامہ پہنانے میں بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ راشن خریدنے کے لیے جب باہر نکتا ہوں تو گلیوں میں موجود شناسا چہرے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ اگر میں ان کے ہاتھ کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاٶں گا تو میرے سماجی تعلقات تو خراب ہوں گے ہی مگر مجھے نو دولتیا، متکبر اور بدمزاج سمیت ڈھیروں نام ملیں گے۔

جب لاک ڈاٶن میں اپنی بوریت مٹانے کے خواہاں میرے احباب میرے ہاں مہمان بن کر آتے ہیں تو انہیں اس کام سے کیسے روکوں؟ کیا حکومت نے کم ہدایت کی ہے کہ میری نصیحت مانیں گے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سے مخاطب ہوتے وقت کن الفاظ کا انتخاب کروں؟

کرونا نے دنیا کو تقریباً ایک پیج پر لا کھڑا کیا ہے مگر ہمارے رویوں میں اس کا الٹا اثر نمودار ہو رہا ہے۔ کہیں سیاست چمک رہی ہے، کہیں دانشوری کی نمائش ہو رہی ہے۔ کہیں اناٶں کو اچھالا جارہا ہے۔ اور کہیں پسند اور مفادات کے لبادے میں حقائق کو چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

دراصل ہمارا معاشرہ پہلے بھی بہت سے ممنوع موضوعات کی آماجگاہ رہتا آیا ہے۔ مزید براں اب کرونا کے غیر معمولی حالات نے حقیقت بیانی کو زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ لکھیں تو کیسے؟ بولیں تو کیسے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments