شوگر انڈسٹری پوری دنیا میں ایک مافیا بن چکی



نیو انگلینڈ جرنل فار میڈیسن طب کی دنیا کے معتبر ترین تحقیقی جریدوں میں سے ایک ہے۔ انیس سو سڑسٹھ میں ہاورڈ یونیورسٹی کے تین ریسرچرز نے ایک مقالہ اس جریدے میں شائع کیا۔ اس مقالے میں شوگر اور چربی کے دل کی بیماریوں پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیقی مقالے میں ریسرچرز نے ثابت کیا کہ دل کی بیماریوں کی بڑی وجہ چربی اور کولیسٹرول ہے اور شوگر کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس ایک مقالے نے اگلے پچاس سال کے لیے پوری دنیا میں میڈکل سائنس اور ادویات بنانے والی تمام کمپنوں کی توجہ اس ایک نقطے کی موڑ دی کہ انسان کو اگر اپنے دل کو تندرست رکھنا ہے تو کولیسٹرول سے پرہیز کرنا ہو گا۔ یعنی گوشت، جانوروں کی چربی سے بنا گھی، مکھن وغیرہ کا استعمال کم سے کم کرنا ہو گا اور اگر دل کا کوئی مرض ہے تو ان چیزوں سے مکمل پرہیز۔

دوہزار سولہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک ریسرچر کے ہاتھ شوگر ایسوسی ایشن کے کچھ کاغذات لگے جن کے مطابق اس تحقیقی مقالے کے ریسرچرز کو آج کے حساب سے پچاس ہزار ڈالرز دیے گئے تاکہ وہ میڈیکل سائنس اور ریسرچ کا رخ شوگر سے موڑ کر کولیسٹرول یا چربی کی طرف کر دیں۔ بات یہیں تک نہ رکی بلکہ تین میں ایک ریسرچر بعد میں امریکہ کے محکمہ زراعت کا سربراہ بنا اور اُس نے امریکہ کے لیے غذائی اصلاحات بنائی۔ دوسرا ہارورڈ یونیورسٹی کے غذائی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا۔

بی بی سی کے ایک انٹرویو میں کوکا کولا کے سی ای او نے تسلیم کیا کہ ایک دو سو پچاس ملی لیٹر کے کین میں تقریباً ساڑھے نو چائے کے چمچ چینی ہوتی ہے۔ پھر اسی کوکا کولا نے ملینز ڈالر کی فنڈنگ ریسرچرز کے ایک ریسرچ گروپ کو دی جو موٹاپے اور چینی کے باہمی تعلق پر ریسرچ کر رہے تھے۔ اس ریسرچ کا جو نتیجہ نکلا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

دنیا کی سب کی بڑی جمہوریت بھارت میں شوگر انڈسٹری کا ملک کی سیاست میں اتنا اثرو رسوخ ہے کہ مہاشٹرا جو گنے کی پیداوار دینے والی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے خواہ کوئی بھی حکومت ہو آدھے سے زیادہ وزیر شوگر مل مالکان ہی ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 1993 سے لے کر 2005 تک مہاشٹرا کی 183 میں سے 101 شوگر مل مالکان نے صوبائی یا قومی سطح کے الیکشن میں حصہ لیا۔ مہاشٹرا اور اتر پردیش انڈیا کی شوگر کی پیداوار کا ٪ 60 دیتے ہیں۔ یہی دو ریاستیں بھارت کی قومی اسمبلی کی 528 میں سے 150 سیٹس رکھتی ہیں۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے بھارت کی سیاست اور پالیسی سازوں پر شوگر کی صعنت کا کتنا اثر ہے۔

اب پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ شوگر انڈسٹری، ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے۔ ملک میں لگی 90 شوگر ملوں کے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ کام کرتے ہیں اور لاکھوں لوگ بالواسطہ اس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ملک کے تقریباً تمام با اثر سیاست دان شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ کچھ چہرے ایسے ہیں جو ملک کی سیاست میں تو شاید نمایاں نہ ہوں لیکن کسی حکومت کو بنانا یا گرانا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

حالیہ سکینڈل جس میں شوگر ملوں نے نہ صرف چینی کی ایکسپورٹ اور گورنمنٹ سے سبسڈی کی مد میں مال بنایا بلکہ مقامی مارکیٹ میں مصنوعی طور پر قیمتوں میں ٪ 30 اضافے سے بھی اربوں کمائے۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی کابینہ کو غلط اعداد و شمار دیے گئے اور دباؤ استعمال کر کے اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا گیا۔ اگر اس انڈسٹری کی تاریخ، اثرورسوخ اور طاقت دیکھیں تو یہ کوئی انہونی بات لگتی نہیں ہے۔ صحت اور میڈیکل کا شعبہ سب سے حساس ترین شعبہ ہوتا ہے۔ جو انڈسٹری پچاس سال تک صرف اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے ریسرچرز سے علمی بدیانتی کروا سکتی ہے اس سے کیا بعید؟

تفصیلی رپورٹ آنے کے باوجود حکومت شاید کچھ نہ کر پائے۔ شوگر ایسوسی ایشن نہ صرف پورے ملک کے اجناس کی ترسیل کا نظام معطل کر سکتی ہے بلکہ حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ اور یہ مسائل صرف ہمارے نہیں پوری دنیا میں یہ انڈسٹری ایک مافیا بن چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments