کرونا بحران اور گھریلو تشدّد



وفاقی وزارت برائے اِنسانی حقوق نے ایک انتباہ کے ذریعے لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدّد کے واقعات رپورٹ کرنے کے لئے ہیلپ لائن 1099 اور واٹس ایپ نمبر 0333 908 5709 کا اجراء کیا ہے۔ انتباہCOVID۔ 19 میں لکھا ہے :

﴾کیا آپ گھر میں غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں؟
﴾کیا آپ کو تشدّدکا سامنا ہے؟
﴾کیا آپ نے تشدّد ہوتے دیکھا ہے؟
ہنگامی صورتحال کے دوران گھریلو تشدّد اوربدسلوکی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرآپ کو مدد کی ضرورت ہو یا کسی واقعے کی اطلاع دینا چاہتے ہوں تو ہمارے ٹول فری نمبر پر رابطہ کریں۔

انتباہ میں ایک سہمی ہوئی بچی کی تصویر بھی ہے جو خود تشدّد کا شکار ہوئی ہے یا اُس نے تشدّد ہوتے دیکھا ہے۔

وزارت برائے اِنسانی حقوق نے ابھی تک ہیلپ لائن کی بدولت رپورٹ کیے گئے واقعات کے بارے میں کوئی معلومات عام نہیں کی ہیں۔ پاکستان میں گھریلوتشدّد کے بارے میں اعداد و شمارجمع کرنا ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔ کرونا وبا سے متاثر ان حالات میں جبکہ پوری دُنیا میں گھریلوتشدّد میں اضافہ رپورٹ ہو رہا ہے، پاکستان میں اس پر اعداد و شمار سامنے نہیں آرہے۔ اس کا مطلب یہ تو ہو نہیں سکتاکہ اِن حالات میں گھریلوتشدّدکم ہو رہا ہے۔

بلکہ تشددکا شکار ہونے والے افراد کے لئے اسے رپورٹ کرنا اب پہلے سے بھی مشکل کام ہے۔ ظلم کرنے والے کی گھر میں موجودگی کے وقت فون کے ذریعے اپنے پر ہونے والے ظلم کی معلومات دینا آسان نہیں ہے۔ ذہنی صحت کے بارے میں آن لائن مشاورت مہیا کرنے والے ماہرین کے ایک گروپ نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ COVID۔ 19 لاک ڈاون کے دوران پاکستان میں گھریلوتشدّدکے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کونسلنگ لینے والی خواتین ان دنوں باقاعدگی سے اپنے آن لائن سیشن جاری نہیں رکھ سکتیں۔ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ گھر میں خاوند اور باقی رشتہ داروں کی موجودگی میں کونسلر سے فون پر بات کیسے کریں۔

اقوامِ متحدہ نے خواتین پر تشدد کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے ’صنفی بنیاد پر تشدد کا کوئی بھی فعل جس کا نتیجہ یا نتیجے کا اندیشہ عورتوں کو جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تکلیف یا نقصان ہو؛ اس میں ایسے افعال کی دھمکی، زبردستی یا آزادی سے محرومی بھی شامل ہے چاہے وہ عوامی سطح پر ہو یا نجی زندگی میں‘ ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے بڑھی انسانی حقوق کی پامالی ہے جو سب سے کم رپورٹ ہوتی ہے۔ جب خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں تو پورا خاندان اور معاشرہ متاثر ہوتے ہیں۔ جس گھر میں تشدد ہوتا ہے وہاں متشدد اور تشدد پسندافراد پیدا ہوتے ہیں۔ گھر کی چاردیواری میں کیاگیاتشددسڑکوں، درسگاہوں، دفتروں،

ہسپتالوں، عدالتوں، تھانوں، حتیٰ کہ حکومت کے ایوانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ عورت پر تشدد کرنے والا گھرانہ متشددمعاشرے کی بنیادی اکائی فراہم کرتاہے جس کا اثر پورے ملک اوراس کی معیشت پر ہوتا ہے۔

خواتین اور بچوں پر تشددمیں اضافہ کرونا لاک ڈاون میں متوقع تھا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہنگامی صورتحال، قدرتی آفات، جنگ، معاشی بحران اور وبا پھوٹنے کے دنوں میں پسماندہ گروہوں کے خلاف تشدد اور بدسلوکی بڑھ جاتی ہے۔ یہ حقیقت کرونا بحران کے لئے بھی درست ہے۔ پوری دُنیامیں کرونا وبا کے لئے لاک ڈاون کے دوران گھریلوتشددمیں بہت زیادہ اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔ ایکسیوس نیوزویب سائٹ کے مطابق چین میں فروری میں اس سال پولیس کورپورٹ کیے گئے تشددکے واقعات پچھلے سال فروری کی نسبت تین گُنازیادہ تھے کیونکہ کرونا وبا پھیلی ہوئی تھی۔

گارڈین لکھتاہے تیونس میں جب لوگوں کوگھروں میں رہنے کے لئے کہا گیاتو پہلے پانچ دنوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی صورت میں رابطہ کرنے والی ہاٹ لائن کو پانچ گُنازیادہ کالزموصول ہوئیں۔ رویٹرزکے مطابق لاک ڈاون کے دنوں میں اسپین میں ریاستی ہاٹ لائن پرگھریلوتشددکے واقعات رپورٹ کرنے کے لئے کالزمیں 12.5 فیصداضافہ ہوا ہے جبکہ آن لائن مشاورت میں 270 فیصداضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں قومی ہاٹ لائن پرگھریلوتشددکے لئے کالز میں 65 فیصداضافہ ہوا ہے۔ تُرکی میں پولیس کی ایمرجنسی لائن اتنی مصروف ہے کہ بہت سی خواتین اپنی رپورٹ نہیں کر پا رہیں اور نہ ہی مدد حاصل کر پا رہی ہیں۔

مذکورہ بالا اعداد و شماراس بات کا ثبوت ہیں کہ جیسے جیسے کرونا وائرس دنیا میں پھیل رہا ہے اور حکومتیں سماجی فاصلے کے لئے اقدامات کر رہی ہیں، گھریلوتشدد کاشکارخواتین دوہرے خطرے سے نبردآزماہیں۔ مہلک وائرس گھر سے باہراوربدسلوکی کرنے والاگھر کے اندر۔ کرونا وائرس کی وجہ سے گھرتک محدود رہنا سب کے لئے مشکل ہے لیکن صنفی تشددکا سامناکرنے والی خواتین کے لئے یہ ایک بھیانک خواب ہے۔ سماجی فاصلہ تشدد کرنے والوں کے ہاتھ میں زبردستی کرنے کا ایک ہتھیارہے جس نے سلامتی اورمددکے تمام راستوں کو بندکر دیا ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران گھریلوتشدد کا شکار ہونے والی خواتین اور بچوں کے لئے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ خاص طورپر اُن ممالک میں جہاں سماجی خدمات معمولی یا ناپید ہیں اور جہاں رہائشگاہیں غیرمحفوظ ہیں۔ بچے اس طرح سے بھی تکلیف برداشت کر رہے ہیں کہ تشدد ہوتے دیکھنا اُن کے ذہن پر ایسے ہی اثرڈالتاہے جیسا کہ ان کے اپنے اوپر تشدد ہو۔

بی بی سی نیوز (اکتیس مارچ) کے مطابق خاوند اپنے اس فعل کے لئے کئی طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ بھارت سے انھیں ایک خاتون نے بتایاکہ اس کا خاوند زیادہ گھریلو تشددکی وجہ مالی دباؤ کو قرار دیتا ہے۔ پھر سکول بند ہیں، بچے پورا دن گھر پہ ہوتے ہیں۔ خاوند شکایت کرتے ہیں کہ بچے انھیں تنگ کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ معمولی باتوں پربچوں پر چیخنا یا انھیں پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر زیادہ تر وہ اپنا غصہ بیوی پر نکالتے ہیں۔ دونوں صورتیں ماں اوربچوں کے لئے یکساں تکلیف دہ ہیں۔

عمومی حالات میں بھی خواتین کی آوازکم ہی سُنی جاتی ہے جبکہ موجودہ بحران میں ان کے لئے مدد حاصل کرنا اور بھی مُشکل ہے۔ جن گھروں میں خواتین کے ساتھ پہلے ہی بُرا سلوک ہوتاتھاوہاں اب شدید تشددہو رہا ہے۔ خواتین اب گھر سے باہر کام پر یا دوستوں کی طرف نہیں جا سکتیں۔ ان کی برادری اور محلے داروں کی حمایت تک رسائی ممکن نہیں۔ بہت سی مظلوم عورتیں بوڑھے والدین کو کرونا وائرس لگنے کے خطرے کے پیشِ نظراپنے والدین کے گھر بھی نہیں جارہیں۔ پھر سفری پابندیاں بھی ان کے اپنوں تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں۔ بہت سی خواتین کرونا وباکی منتقلی کے خوف سے شدید تشددکا شکار ہونے کے باوجود طِبی مدد حاصل کرنے سے گریزاں ہیں۔

ٰآپ تصور کریں بدسلوکی کرنے والے شخص کے ساتھ ایک گھر میں رہنے کا۔ جہاں ہر روز تنقید، گالی گلوچ، آپ کے تیار کردہ کھانے میں نقص نکالنا، آپ کے سرانجام کردہ گھریلوکام کاج پر ناگواریت، آپ کیا کھا رہے ہیں، کیا پہن رہے ہیں اس پر بحث پھر اوپر سے جسمانی تشدد، یہ ایک بہت ڈراؤناخواب ہے۔ اب مزید تصّورکریں کہ دنیاCOVID۔ 19 کامقابلہ کر رہی ہے اور آپ لاک ڈاؤن کے دوران اسی شخص کے ساتھ گھر میں قید ہیں۔ ایسی صورت میں تشدد کا پیمانہ کیا ہو گا؟

بہت سے ممالک میں سماجی فاصلے اور لاک ڈاؤن کے دوران عورتوں اوربچوں کو بڑھتے خطرے کو کم کرنے کے لئے قانونی اور پالیسی اقدامات کے بارے میں غورکیاجا رہا ہے۔ COVID۔ 19 پر حکومتوں کی قومی ترجیحات واصلاحات میں گھریلوتشددکا نشانہ بننے والوں کی حفاظت اور سلامتی کے حوالے سے منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ کئی حکومتیں بڑھتے معاشی دباؤ کے پیشِ نظرلوگوں کوسماجی خدمات بہم پہچانے کے لئے رقوم میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے پوری دنیا سے گھریلوتشددمیں اضافے کے خاتمے کے لئے فوری کوششیں کرنے کے لئے درخواست کی ہے۔

سیکریٹری جنرل انٹونیوگاتیرس نے پانچ اپریل کو اپنے ٹوئٹرپیغام میں کہا ’میں تمام حکومتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ جب وہ وبا سے نمٹنے کے اقدامات کر رہی ہیں تو اس میں خواتین کی حفاظت کو اپنی ترجیح بنائیں‘ ۔ انھوں نے تمام ممالک سے کہا کہ وہ کرونا بحران سے نمٹنے کے لئے اپنے قومی منصوبوں میں خواتین کا تشدد سے بچاؤ، دادرسی اور اس کا ازالہ بنیادی حصہ بنائیں۔

آج کل جبکہ دنیا کرونا بحران سے لڑ رہی ہے تو ان افراد کو جو خطرناک حالات میں رہ رہے ہیں، بھولنا نہیں چاہیے۔ کوئی بھی شخص جسے گھریلوتشددکاسامنا ہواُسے فوری اور مناسب مدد ملنی چاہیے۔ ناکہ یہ کہ وہ ہفتوں تک تشددکاشکارکرنے والے کے جال میں پھنسارہے۔ حکومت، غیرسرکاری تنظیموں اورعوام کو مل کر تمام سطحوں پر اس وباکے سماجی خطرات سے نمٹنے کے لئے جدوجہدکرنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments