اسد بخاری: فلمی ستاروں کی کہکشاں کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا


فلمی ستاروں کی کہکشاں کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا، اسد بخاری 14 اپریل کو انتقال کرگئے، مرحوم نے آسو بلا، خانزادہ، ظلم دا بدلہ، دھیاں نمانیاں، پتر جگے دا، نواب زادہ، پگڑی سنبھال جٹا، موج میلہ، چن مکھناں، جند جان اور دلاں دے سودے سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا، 70 کی دہائی میں اسد بخاری کا نام فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، ان کا تعلق گکھڑ سے تھا جہاں وہ 1924 میں پیدا ہوئے، انہوں نے پنجابی فلموں میں ہیرو اور ولن کے کردار بھی ادا کیے ، مظہر شاہ کے بعد سے سب سے مقبول ولن اسد بخاری رہے، ان کی بڑھکوں نے بھی مقبولیت پائی جو عوام کی زبان پر رہتی تھیں، 80 کی دہائی تک اسد بخاری پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اول کے اداکار شمار ہوتے تھے۔

بچپن میں ان کے لبرٹی میں واقع گھر اپنے تایا ارشد کاظمی مرحوم کے ساتھ جایا کرتے تھے، اسد بخاری کی بیگم کو ہم آنٹی چھینا کہتے تھے (اصلی نام اب یاد نہیں آ رہا، معذرت) ، آنٹی چھینا نے صرف ایک فلم میں کام کیا اور اسد بخاری سے شادی کرکے فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ دیا، انہوں نے اسد بخاری کا آخری وقت تک ساتھ نبھایا اور وفادار بیوی ثابت ہوئیں۔

اسد بخاری اور ارشد کاظمی میں بہت یارانہ تھا، ارشد کاظمی فلم پروڈیوسر، ڈائریکٹر، رائٹر اور نغمہ نگار بھی تھے، انہوں نے 7 فلمیں بنائیں جن میں ”دھی رانی“ سپرہٹ رہی، اس فلم کی کاسٹ میں ماضی کی معروف اداکارہ عالیہ بیگم اور اقبال حسن شامل تھے، دھی رانی کے تمام گانے آج تک ہٹ ہیں جن میں میری چیچی دا چھلہ ماہی لا لیا۔ کار جاکے شکایت لاواں گی، پُھٹے سدے بودے واں کے شہری بابو لنگ دا۔ ہیں، اسی فلم کی دھمال بھی بہت معروف ہے صدقے صدقے لال قلندر جھولے جھولے لال قلندر۔ سیہون دا شہباز قلندر۔

شباب کیرانوی کا تعلق ظفر وال سے تھا، میرے بزرگ بھی ظفر وال سے تعلق رکھتے تھے، ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ارشد کاظمی اور شباب کیرانوی میں گہری دوستی تھی، میرے تایا شروع میں شباب کیرانوی کی فلموں کو کہانیاں لکھا کرتے تھے بعد میں انہوں نے خود فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کرنا شروع کیں، اسد بخاری کو بھی پہلا موقع شباب کیرانوی نے دیا اور انہیں اپنی فلم ”ثریا“ میں کاسٹ کیا جس کے بعد وہ اپنی محنت سے فلمی ستارے بن گئے۔

اسد بخاری، ارشد کاظمی کو ڈیڈی کہا کرتے تھے، ایک بار ارشد کاظمی، ناظر شاہ زنجانی اور اسد بخاری سیہون شریف گئے اور وہاں اسد بخاری نے ایک ملنگ کے گھٹنوں کو جھک کر ہاتھ لگایا اور سلام کیا تو ناظر شاہ زنجانی نے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر کہا ”اسد تم سید ہوں اور غیر سید کے قدموں میں جھک رہے ہوں، عزت سادات کا خیال کرو“ یہ سن کر ملنگ اسد بخاری کے قدموں میں گر گیا کہ سید بادشاہ مجھے گناہگار نہ کریں۔

اسد بخاری جہاں عظیم فنکار تھے وہاں وہ یاروں کے یار اور وضع دار انسان بھی تھے، 1981 میں ارشد کاظمی کی بڑی بیٹی کی شادی تھی، ان کا گلبرگ میں گھر زیرتعمیر تھا، ایک دن اسد بخاری سے کہا کہ بیٹی کی شادی کی تاریخ قریب آرہی ہے اور میرا گھر ابھی مکمل نہیں ہوا، میں بہت پریشان ہوں جس پر اسد بخاری نے کہا کہ ڈیڈی پریشان کیوں ہوتے ہیں، آپ کی بیٹی میری بھی بیٹی ہے، میرا گھر حاضر ہے، آپ کارڈ چھپوائیں اور میرے گھر سے بیٹی کی رخصتی کریں اور پھر میری کزن کی رخصتی اسد بخاری کے گھر سے ہوئی۔

1982 میں میرے تایا ارشد کاظمی کا انتقال ہوگیا، طویل عرصہ بعد سید انتظار شاہ زنجانی صاحب کے ہاں اسد بخاری سے ملاقات ہوئی، شاہ جی نے تعارف کرایا کہ ارشد کاظمی کے بھتیجے اور اعجاز کاظمی کے بیٹے ہیں، یہ سن کر اسد بخاری کرسی سے اٹھے اور گلے لگایا کہ بہت مدت بعد دوست کے بچے کو ملا ہوا، دل خوش ہوگیا ہے، آپ کہاں غائب رہے، ارشد کاظمی تو مجھے بہت عزیز تھا۔

فلم انڈسٹری چھوڑنے کے بعد انہوں نے اللہ سے لوُ لگالی، اسد بخاری نے کامیاب زندگی گزاری، بچوں کی اچھی تربیت کی، اسد بخاری ملک کے عظیم فنکار تھے، انہوں نے فن کی بہت خدمت کی اور اپنے لاکھوں فین بنائے، اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments