ذخیرہ اندوزی کے خلاف آرڈیننس کا مسودہ اور قانونی تقاضے


ترجمان وزارت قانون کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آرڈیننس بنانے کا اہم ٹاسک وزیر قانون کو دیا تھا۔ وزارت قانون کے ترجمان کا کہنا ہے، کہ وزیر قانون نے آرڈیننس کا مسودہ وزیر اعظم کو پیش کر دیا ہے۔

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری کے خلاف صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز سے 24 اپریل تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔

دو رکنی بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا، سب چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں، جو چیزیں آج کل عوام کی ضرورت ہیں، وہ بھی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ جسٹس مظہر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا، کہ حکومت ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیا کارروائی کر رہی ہے۔ لاک ڈاٶن ختم ہو گا یا نہیں ہو گا، اس کا فیصلہ تو حکومت کرے گی لیکن قیمتوں کو کنٹرول کرنا یہ بنیادی ذمہ داری ہے، جس میں غفلت برتی جا رہی ہے۔ ہمیں آیندہ سماعت پر رپورٹ دیں، عدالت مطمئن نہ ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری قابو کرنے کے لئے دو ایکٹس اور کئی دیگر متعلقہ قوانین موجود ہیں۔ جیسے کے امتناع نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی ایکٹ مجریہ 1977ء اور فوڈ اسٹف کنٹرول ایکٹ 1958ء غیر موثر سہی لیکن موجود ہیں۔ اس کے تحت سرکاری محکموں کو مارکیٹ میں روزمرہ کی ضروری اشیا کی مناسب رسد کی فراہمی، قیمتوں پر کنٹرول، ذخیرہ کی ہوئی اشیا کی بر آمدگی اور اس بارے میں ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے وسیع اختیارات موجود ہیں مگر کرپشن کے باعث ایسے مل مالکان، بڑے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی تعداد بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، جنھیں ان قوانین کے مطابق سزائیں دی گئی ہوں۔ مروج قوانین چھوٹے دُکان داروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

مروج ایکٹ کے سیکشن 7 حکومتی محکموں کو ذخیرہ کی ہوئی چینی، آٹا، مٹی کا تیل، دالیں، پتی، اور نمک سمیت دیگر رو زمرہ کی اشیا کو عوامی ضرورت کے مطابق مارکیٹ میں لانے کی اجازت دیتا ہے۔ جب کہ سیکشن 8 کے تحت حکومت، قیمتوں کا تعین کا جائزہ لے سکتی ہے۔ سیکشن 11 کے تحت ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری میں ملوث افراد کا سمری ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری آئین کے آرٹیکل 2، 227 اور آرٹیکل 9 سے متصادم ہے۔

اگر مروج قوانین پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے تو ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر عمل در آمد نہ ہو، قانون موثر نہ ہو، تو جتنے بھی آرڈیننس بنائے جائیں اور آرڈیننس لانے کا جتن کیا جائے، خود اپنی آپ آئینی و طبعی موت مر جائیں گے مگر کوئی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments