ہم خون آشام معاشرے کے راجا گدھ ہیں


1993ء میں جنوبی افریقہ کے ایک فوٹو جرنلسٹ کیون کارٹر نے سوڈان میں قحط کے دوران میں ایک تصویر کھینچی تھی۔ تصویر میں ایک گدھ ایک بھوکی اور قریب الموت بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے، تا کہ اسے نوچ کر کھا سکے۔ یہ تصویر دنیا میں اس قدر مشہور ہوئی کہ انہیں اس تصویر کی وجہ سے پلٹزر پرائز سے نوازا گیا۔

جب وہ اس ایوارڈ کے پانے کا جشن منا رہا تھا، تو ساری دنیا کے میڈیا پر اس کا ذکر ہو رہا تھا اور اس کی شہرت بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ ایک انٹرویو کے دوران میں کسی نے کارٹر سے پوچھ لیا، کہ آپ نے تصویر تو بہت زبردست لی، لیکن یہ بتائیں، اس بچی کا کیا ہوا؟ کارٹر یہ سوال سن کر دم بخود رہ گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر جواب دیا، کہ یہ دیکھنے کے لئے وہ رک نہیں سکا، کیوں کہ اسے فلائٹ پکڑنا تھی۔ یہ جواب سن کر سوال پوچھنے والے نے کہا:
”اس دن وہاں دو گدھ تھے، جن میں سے ایک کے ہاتھ میں کیمرا تھا”۔
اس واقعے نے کارٹر پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور آخر کار خود کشی کر لی۔

کارٹر آج زندہ ہوتے اگر وہ بھوک کی شکار اس بچی کو اقوام متحدہ کے فیڈنگ سینٹر تک پہنچا دیتے، جہاں وہ بچی پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔

کیا ہم بھی گدھ بن چکے ہیں؟ آج کل ہم بھی ہاتھوں میں کیمرے والے موبائل لے کر ہر وقت کسی ایسے ہی واقعے کی تلاش میں رہتے ہیں اور جونھی ہمیں ایسا کچھ نظر آتا ہے تو فوراً اپنے کیمرے میں محفوظ کر کے ریٹنگ اور لائکس، کمنٹس کے چکر میں سوشل میڈیا پے وائرل کر دیتے ہیں۔

آج کا آدمی جب حادثے کو دیکھتا ہے، تو فوراً اس کا ہاتھ اپنے موبائل پر جاتا ہے۔ وہ فون سے کسی ایمبولنس وغیرہ کی مدد نہیں طلب کرتا، بلکہ زخموں سے کراہتے بسمل کی تصویر یا وِڈیو بنانے لگتا ہے، تا کہ اسے فیس بک یا واٹس ایپ کے ذریعے ساری دُنیا میں پھیلا سکے۔

کیا ہم یہ سبق بھلا بیٹھے ہیں، کہ کسی بھی کام میں سب سے پہلے انسانیت کو مقدم رکھنا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments