سائنس، کورونا وائرس اور ایمان



جس دن سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، میں سچ کی شناخت ڈھونڈ رہی ہوں۔ مجھے معلوم نہیں ہو رہا سچ کہاں ہے۔ مجھے اندازہ نہیں ہو رہا کہ سچ ہے کیا۔ میں اس نکتے پہ اٹکی ہوئی ہوں کہ یہ نزلے، زکام کا وائرس ہے جو ہمیشہ سے ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو جاتا رہا ہے۔ میری بچپن کی ایک سہیلی کو ہر سال خوف ناک زکام ہوا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ہر سال اس کی ویکسین لگواتی ہے۔ جن دنوں اس کو زکام ہوتا تھا، وہ ہمیشہ مجھ سے ملنے سے کتراتی تھی، کہ کہیں مجھ کو بھی نہ ہو جائے لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں تھا۔

کورونا وائرس شاید اتنا خطرناک نہیں، جتنا میڈیا اسے دکھا رہا ہے۔ میری یہ بات سن کر سائنس قہقہے لگانے لگی۔ مَیں نے کہا یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ ستارے ساکن ہیں اسی طرح یہ وائرس بھی تو نا دیدہ ہے، نہ دکھائی دیتا ہے اور نا ہی سنائی دیتا ہے۔ میں نے کہا یہ تو برسوں پرانا وائرس ہے لیکن اس سے پہلے اتنا بھیانک نہ تھا۔ لیکن بحث کرنا سائنس کی عادت ہے۔ سائنس کہتی ہے ساکن ستارے تو زمین سے اُن کی کروڑوں میلوں کی دُوری کو ظاہر کرتے ہیں۔

میرا دماغ بھی ڈھٹائی پہ تلا ہوا ہے کہ کورونا وائرس تو دُنیا بھر میں عام ہے۔ لیکن Covid۔ 19 چین کے صوبے ووہان سے دسمبر 2019ء میں شروع ہوا تھا اور گیارہ مارچ 2020ء سے ڈبلیو ایچ او نے اسے عالم گیر وبا قرار دیا۔ کورونا وائرس مختلف متعدی امراض پر مشتمل وہ زہر ہے جو انسان کے نظامِ تنفس میں اُتر کر سنجیدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ایک نیا وائرس ہے لہٰذا ماہرین ہنوز اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔ امریکا کی ریاست میری لینڈ کی نامور یونی ورسٹی جان ہاپکنز کے ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ کرونا سے متاثرہ شخص اگر کھانستا یا چھینکتا ہے، تو ہوا یا زمین پر اس کی بوندیں گرنے سے یہ دوسروں میں منتقل ہو سکتا ہے۔

عام طور پر یہ droplets چند فٹ کے فاصلے سے زیادہ دُور نہیں جا سکتیں۔ یہ چند سیکنڈوں ہی میں زمین پر گر جاتی ہیں۔ اسی لیے ایک دوسرے سے مناسب سماجی فاصلہ قائم رکھنا انتہائی ضروری اقدام ہے۔ ابتدا میں یہ مفروضہ سامنے آیا، کہ چین کے صوبے ووہان کی خوردنی سمندری مچھلیوں کے بازار میں بکنے والی چمگادڑوں سے یہ وائرس پھیلا، لیکن اس پہ کوئی حتمی رائے موجود نہیں۔ تاحال تحقیقات جاری ہیں۔ وائر س کی مدّت معلوم کرنے کی پیمائش کا وقت اس کے ظاہر ہونے سے لے کر 14 دن تک ہے۔

اس کی علامات میں خشک کھانسی، بخار، سانس کا اُکھڑنا، پٹھوں میں درد، گلے کی سوزش، ذائقے اور سونگھنے کی حِس کا ختم ہونا، اسہال اور سر درد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ شاید ہی کسی کے گردوں یا پھیپھڑوں پر حملہ آور ہو کر موت دے۔ لیکن سائنس کو مکمل یقین ہے کہ یہ وبا اتنی طاقت رکھتی ہے کہ انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دے۔ لیکن میرا یقین پھر وہی ہے کہ یہ اعصاب کی اور ایمان کی جنگ ہے۔ جس طرح میرے پاؤں تلے زمین بالکل ہم وار ہے آسمان پہ سورج بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔

سائنس پھر مجھے کہتی ہے کہ ذرا زمین کو کسی پہاڑ پہ کھڑی ہوکر دیکھو۔ میں کہتی ہوں کہ اگر کسی کا اس بیماری کا ٹیسٹ پوزیٹو آ بھی جائے تو زکام کی معمولی قسم ہو سکتی ہے۔ مگر سائنس پھر کہتی ہے، پوزیٹو تو پوزیٹو ہے۔ میرے نزدیک پوزیٹو اور نیگیٹو دو حقائق کا حساب رکھنے والے مختلف سوچ کے لوگ ہیں۔ ان دونوں کا تعلق اس حقیقت سے ہے جو ان کے دماغوں پہ مسلط ہے۔ لیکن کسی چیز یا نتیجے کے وجود کے اسرار میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جہاں ایک دوسرے کی ضد کا بھی ملاپ ہونے لگتا ہے۔

جہاں خیال اور حقیقت اندر اور باہر سے لیک ہو جاتی ہے۔ لیکن سائنس اس حوالے سے بہت مختلف ہے۔ سائنس لیبارٹری میں کیے گئے عامیانہ ٹیسٹ کو کسی میرے جیسے مضبوط ایمان والے شخص کے دل کی طاقت سے قطعی بے تعلق رکھتی ہے۔ بالکل ویسے جیسے ہیرا کوئلہ نہیں ہو سکتا۔ جیسے روشنی اندھیرا نہیں ہوسکتی۔ بالکل اسی طرح کورونا کا ہر پوزیٹو ٹیسٹ اس وقت تک پوزیٹو نہیں ہو سکتا، جب تک سنجیدہ علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔ لیکن سائنس یقینا میرے ان خیالات کا مذاق اُڑاتی ہوئی، بھیانک قہقہے لگاتی ہوئی، اس کا رویہ اس طاقت ور جرنیل کی طرح ہوجاتا ہے، جو اپنی طاقت کے بل بوتے پہ اپنے فرماں روا کے تخت پر قبضہ کر لیتا ہے۔

کورونا اور موسمیاتی نزلے کا وائرس کسی نہ کسی طور پر ملتے جلتے ہیں۔ تا حال سائنس دان اور طبیب اس نئے وائرس کی مکمل تصویر کشی کرنے میں نا کام ثابت ہو رہے ہیں اس سے پہلے 2003ء میں بھی SARS کے نام سے وائرس آیا تھا جو کورونا وائر س سے نکلا تھا۔ اس بیماری کا خوف اتنا پھیل چکا ہے کہ انسان یہ بھول گیا کہ قدرت نے انسانی جسم کے اندر وہ مضبوط مدافعتی نظام بنا رکھا ہے، جو اسے ہر بیماری سے بچا لیتا ہے۔ سائنس کو تو انسان کی بیماریوں سے لڑنے کی قوت کی مضبوطی پہ بھی تشویش ہے۔

سائنس اپنے محدود میدان میں انسان کی لا محدود طاقت کی ہر وہ بات جو بظاہر غلط ہے لیکن حقیقت میں صحیح ہو یعنی Paradox یعنی تضاد ہو ماننے سے انکار کر دیتی ہے۔ محدود علم کے سفر میں سر کرداں رہنے والے اندھیری گلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ علم جمع اور تفریق تو کرتا ہے لیکن اسے واضح نہیں کر سکتا۔ سائنس کا علم اس دیوار کی طرح ہے جس کے پار نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ ایسے ستار کی طرح ہے جس کی تاروں سے موسیقی نہ پھوٹتی ہو۔

یہ اس کینوس کی طرح ہے جو کورا ہی رہ جاتا ہے۔ سائنس کی دُنیا منطق پہ مبنی ہے۔ اس کا تعلق انسان کی ہستی اور ایمان سے جڑا ہوا نہیں ہوتا۔ سائنس صرف اپنے ذرائع پہ اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ سائنس کا ذریعہ محدود ہے جو انسان کی بے پایاں طاقت کو ماننے سے انکاری ہے لیکن انسان کے دل کے تار موسیقی کی لہروں سے پیدا ہونے والے ارتعاش پہ جھوم اُٹھتے ہیں۔ میرا دل بھی زندگی کے سر اور کثرت ِ ایمان سے معمور ہے۔

بھلا یہ کیسے مانا جائے کہ میرا کورونا ٹیسٹ محدود آلات کی بدولت مثبت ہو جانے سے میری زندگی ختم ہو جائے گی۔ جب مجھے ماہر سرکار کے طبیب نے میرا ٹیسٹ بھی نہ دکھایا نا ہی اس حر ف کا نقشہ میرے سامنے رکھا لیکن مَیں تب بھی نہ تو کم زور پڑی اور نہ تھکی۔ میں جانتی تھی کسی تصور کے ظہور کے لیے بھی کوئی ہیت تو لازمی ہے۔ لیکن وہاں تو نہ تصور تھا نہ ہیت۔ بس تھا تو سرکار کے پروٹوکول کا رعب و دبدبہ اور میڈیا پر خبر دینے کی دھونس۔

ایک معمولی کاغذ جو مجھے دکھایا بھی نہ گیا اس کی طاقت نے یہ سمجھایا کہ میری حیثیت ایک حقیر ترین کیڑے کے جیسی ہے۔ میں جو کہ اس ملک کی ذمہ دار اور باشعور شہری ہوں اس وقت میرے لیے وقت تھم گیا تھا۔ حکومت کا بے ہودہ پروٹوکول ایک ایسا کھیل بن گیا تھا جس میں صرف اقتدار کی جبلت کی تسکین اہم تھی۔ جب قانون کو کسی ایک انسان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی، ہتک اور تکلیف پہ منطبق کر کے دیکھا جائے اصلیت اپنی پوری حقیقت کے ساتھ نظر آتی ہے۔

ایسے میں انسان کی سماجی حیثیت اس مبہم نظام کی طرح نظر آتی ہے جو ریاست اور سیاست کی دھند میں لپٹی ہوئی زبوں حالی کی تصویر ہو۔ اگر لمحے بھر کو یہ دھند ہٹا دی جائے تو ہم کانپ اُٹھیں کہ انسان مکوڑے بنا دیے جاتے ہیں۔ پروٹوکول کے نام پہ ایسے ایسے کام کیے گئے کہ اگر اُنھیں سزا دی جائے تو عذاب کے تمام وسائل ختم ہو جائیں گے۔ انسان کے معاشرے میں ایک مجبور ماں کو برتر دکھوں سے دو چار کیا جاتا ہے۔ مجھے اپنے دفاع میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہنا کہ بظاہر مہمل لیکن صحیح بات یعنی Paradox کی عمر پورے ایک ہفتے پہ مشتمل تھی۔ یہ ایک پر اسرار لیکن سادہ حقیقت تھی جسے ااسپتال کی ڈاکٹر نادیہ جواد نے بھی یہ کہہ کر مہر لگا دی کہ ”آپ کے ٹیسٹ غلط پوزیٹو آئے تھے“ لیبارٹری کا ایرر یعنی غلطی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments