یہ لطیفہ آپ نے سن تو نہیں رکھا؟


سوشل میڈیا کی بدولت لطیفے بھی بہت وائرل ہونے لگے ہیں۔ لطیفے پہلے بھی تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ اِن کی موجودگی سب معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ لطیفے سے ہرکوئی لطف اندوز ہوتا ہے اور ذہنی تفریح محسوس کرتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ لطیفے اور انسان کا باہمی تعلق کب سے ہے؟ لطیفے کی خصوصیات کیا ہیں؟ اور لطیفے کے نفسیاتی اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے! لطیفے کی ہسٹری پر ایک مختصر تحقیقی نظر ڈالتے ہیں اور لطیفے کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لطیفہ الفاظ کی ایسی ترتیب ہوتا ہے جس میں خاص بیانیئے کے لیے مخصوص الفاظ کو بہترین طریقے سے چنا جاتا ہے۔

لطیفے کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے اور بظاہر اِسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ لطیفہ ایک بہت چھوٹی کہانی کی شکل ہے جس کا اختتام پنچ لائن پر ہوتا ہے۔ جب لوگ اِس کہانی کی پنچ لائن پر پہنچتے ہیں تو تب انہیں پتا چلتا ہے کہ لطیفے کی ابتدائی کہانی کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔ ہنگری کے مشہور ماہرلسانیات رابرٹ ہیزرون کے مطابق لطیفہ زبانی ادب کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے جس کا مذاق اس چھوٹی سی کہانی کے آخری جملے میں عروج پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے جسے پنچ لائن کہا جاتا ہے۔

اس کہانی کی ایک شرط ہوتی ہے کہ سننے یا دیکھنے والے کی توجہ کہانی پر مسلسل موجود رہے اور اختتام تک ضرور پہنچے۔ عموماً لطیفے گھڑنے والے ادیبوں کے نام کسی کے علم میں نہیں ہوتے۔ لطیفے زبانی ادب کا حصہ ہوتے ہیں لیکن انہیں اشاعتی صورت میں بھی لایا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ لطیفے جب ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ہوں تو ان کے الفاظ میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو۔ ایک ڈچ ماہر لسانیات آندرے جولز کے مطابق لطیفے اپنے بنانے والے کی گمنامی کے ساتھ آگے سفر کرتے ہیں۔

بعض اوقات لطیفے ایک سطرپر بھی مبنی ہوتے ہیں یعنی وَن لائنر لطیفے جو بذات خود پنچ لائن ہی ہوتی ہے۔ اِسے لطیفہ گھڑنے والے کا کمالِ فن بھی کہہ سکتے ہیں۔ لطیفے مزاح کی ایک قسم ہیں لیکن ہر مزاح لطیفہ نہیں ہوتا۔ لطیفے بہت ذاتی زندگی اور عام لوگوں کی عمومی زندگی پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ کبھی عمومی گفتگو میں لطیفے شامل کیے جاتے ہیں اور کبھی مجمع کی تفریح کے لیے لطیفوں کا سٹیج سجایا جاتا ہے۔ لطیفوں کے ابتدائی شواہد تقریباً 23 سو قبل مسیح یعنی آج سے تقریباً 4320 سال پہلے ملتے ہیں۔

یہ زمانہ سومری اور بابلی تہذیبوں کا تھا۔ ابتدائی لطیفے فضلیاتی (ٹوائلٹ) اور جنسی مزاح پر مبنی تھے۔ مثلاً ہسٹری کا پہلا دستیاب لطیفہ کچھ یوں تھا کہ مرد کی گود میں بیٹھی خوبصورت عورت اپنی گندی ہوا خارج کردے۔ تاریخ کا دوسرا لطیفہ تقریباً 16 سو قبل مسیح کا ہے جس میں فرعون کی ایک مخصوص نفسیاتی حالت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی بور ہوتے فرعون کو تفریح مہیا کرنی ہوتو خوبصورت نوجوان عورتوں کو جال میں بند کرکے دریائے نیل کے شفاف پانیوں میں ڈال دیا جائے اور فرعون کو کہا جائے کہ جاؤ مچھلی کا شکار کرو۔

دستیاب ہسٹری کے اعتبار سے تیسرا پرانا لطیفہ 12 سو قبل مسیح کا ہے۔ اس لطیفے کے مطابق ایک بیل تین افراد کی ملکیت تھا۔ ان کے ہاں اس بیل سے ایک بچھڑا پیدا ہوا۔ تینوں افراد میں بچھڑے کی ملکیت کے حوالے سے جھگڑا شروع ہوگیا۔ وہ انصاف کے لیے بادشاہ کے پاس پہنچے۔ بادشاہ کے نزدیک یہ بہت سنجیدہ معاملہ تھا۔ بادشاہ نے اُس وقت کی خاتون مبلغ سے رابطہ کیا۔ خاتون مبلغ نے تینوں مردوں کو گھروں میں موجود ان کی بیویوں کے ساتھ مختلف سرگرمیاں کرنے کا کہا۔

بدقسمتی سے اس لطیفے کی پنچ لائن ہسٹری میں گم ہوگئی ہے لیکن روایت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس کا اختتام بھی فحش مواد پر مبنی تھا۔ ہسٹری میں لطیفوں کی پہلی کتاب ”فیلوگیلوس“ کے ٹائٹل سے موجود ہے۔ یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”قہقہے سے پیار کرنے والا“ ہے۔ یہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں تحریر کی گئی۔ اس میں 265 لطیفے ہیں۔ اس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تحریر کرنے میں مختلف مصنفین نے حصہ لیا۔

اس کتاب میں موجود لطیفوں نے ماڈرن دنیا کے محققین کو حیران کردیا کیونکہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کی تہذیب کے لطیفے آج کی ماڈرن دنیا میں بھی شناسا سے ہیں۔ ان موضوعات میں غیرحاضر دماغ پروفیسر اور اس کی بیوی، خواجہ سرا، ہرنیئے کے مرض میں مبتلا مرد کی خواہشات اور خوبصورت محبوبہ کے منہ سے بدبودار سانس نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔ برطانوی ٹیلی ویژن پر 7 دسمبر 1969 ء کو ”مونٹی پائیتھون کامیڈین گروپ“ کا ایک مزاحیہ سکرپٹ ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کا نام ”ڈیڈ پیرٹ سکیچ“ تھا۔

اس سکرپٹ میں 1969 ء کے برطانوی لائف سٹائل کی منظرکشی کرتے ہوئے دکاندار اور ایک گاہک کی بحث دکھائی گئی تھی۔ گاہک نے دکاندار سے ایک طوطا خریدا۔ بعد میں دونوں کے درمیان یہ بحث شروع ہوگئی کہ طوطا زندہ ہے یا مردہ؟ لطیفوں پر تحقیق کرنے والوں کے لیے نئے برطانیہ کے لائف سٹائل پر مبنی یہ سکرپٹ چونکا دینے والا تھا کیونکہ اسی سے ملتا جلتا لطیفہ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں لکھی گئی لطیفوں کی کتاب میں بھی موجود تھا۔

پندرہویں صدی عیسوی میں جب پورے یورپ میں پرنٹنگ انقلاب شروع ہوا تو دوسرے مواد کے ساتھ لطیفے بھی شائع ہوکر تیزی سے پھیلنے لگے۔ پرنٹنگ انقلاب آنے کے بعد ایک اطالوی مصنف ”پوگیو براسیو لینی“ نے ”فیس ٹیا“ کے ٹائٹل کے تحت لطیفوں کی پہلی کتاب 1470 ء میں شائع کی۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پندرہویں صدی کے اختتام سے پہلے یعنی کچھ برسوں کے اندر ہی اس کتاب کے 20 ایڈیشن شائع ہوگئے۔

لطیفوں کی ایک کتاب ولیم شیکسپیئر سے بھی منسوب کی جاتی ہے جس کے اقتباسات ولیم شیکسپیئر کی تحریروں جیسے ہیں۔ ”سگمنڈ فرائیڈ“ پہلا ماڈرن سکالر اور ماہر نفسیات تھا جس نے انسانی شخصیت کی تفتیش میں لطیفوں کو خاص اہمیت دی۔ ”لطائف کا لاشعور سے تعلق“ کے عنوان سے 1905 ء میں سگمنڈفرائیڈ کا ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا جس میں اُس نے ثابت کیا تھا کہ لطیفے، مزاح اور مسخرے پن ایک دوسرے سے علیحدہ صنف ہیں جبکہ بعد میں آنے والوں نے ان تینوں چیزوں کو مزاح کی اصطلاح کے تحت یکجا کردیا جس سے لطیفے، مزاح اور مسخرے پن کی تعریف بتانے میں وضاحت نہ رہی اور کنفیوژن پیدا ہوگئی۔

مختصر یہ کہ جب سے بنی نوع انسان کی ہسٹری کے شواہد ملتے ہیں تقریباً اُسی وقت سے لطیفے کا وجود بھی ملتا ہے اور یہ لطیفے بلاتخصیص معاشرے، طبقہ ہائے زندگی، عقیدے، روزگار، نسل، زبان، عمر، صنف، کلچر، ذات پات، علم و دانش، جانوروں اور انسانی زندگی سے متعلق اشیاء وغیرہ سب کے حوالے سے موجود ہیں۔ ان کا مقصد انسانی ذہن کو ہنسی جیسی راحت مہیا کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اپنی ساری عمر بڑی ترتیب اور سنجیدگی سے گزارتا ہے لیکن آخر میں اسے پتا چلتا ہے کہ اس کی ساری عمر ایک لطیفہ ہی تھی۔ پھر وہ اپنے اوپر خوب ہنستا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments