پروفیسر عبدالغفار مرحوم کی یاد میں


لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں قید ہوں، ایک ضروری کام کے لئے بازار جانا ہوا۔ جب میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج گوجرہ کے سامنے سے گزرا، تو ماضی فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔ اس کالج کے ساتھ میری لاتعداد یادیں جڑی ہیں۔ ان یادوں کی ایک وجہ، میرے پھوپھا جی، پروفیسر عبدالغفار مرحوم ہیں، جو کہ اس کالج کے پرنسپل تھے۔

اس ادارے کے لئے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کو ایک نئی شناخت دی۔ جس کالج میں، اسٹوڈنٹس اور سیاسی تنظیموں کا راج تھا، پروفیسرز نے اپنے اپنے پرائیویٹ کالج کھول رکھے تھے، جہاں اساتذہ سے بدتمیزی عام تھی، جب وہ پرنسپل بنے، تو فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ گورنمنٹ کالج کے دروازے ٹھیک آٹھ بجے بند ہو جاتے تھے، کوئی پرندہ بھی لیٹ داخل نہیں ہوسکتا تھا۔

پروفیسر عبدالغفار ایم اے عربی تھے، مصر کی مشہور یونیورسٹی جامعتہ الازہر میں پی ایچ ڈی کے لئے سکالرشپ بھی ملا، لیکن گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نا جا سکے۔ گورنمنٹ کالج گوجرہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے اور اسی ادارے سے بطور پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے، بطور پرنسپل ان کی ملازمت کا دورانیہ صرف ڈیڑھ سال تھا، لیکن اس مختصر دورانیے میں، انہوں نے اس کالج کا نقشہ بدل کررکھ دیا۔

انکا سب سے بہترین کارنامہ، پروفیسرز کی کالج میں حاضری کو یقینی بنانا تھا، جن پروفیسرز نے پرائیویٹ کالج اور اکیڈمیز بنا رکھی تھی، جو کالج میں تشریف کم ہی لاتے تھے، جبکہ ان کی حاضری پوری ہوتی تھی، انہیں الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے پرائیویٹ سیکٹر کاروبار کی اس کالج میں تشہیر نہیں کریں گے، کالج ٹائم میں کوئی پروفیسر اپنی اکیڈمی نہیں جائے گا اور انہوں نے یہ کر کے بھی دکھایا۔ کالج میں اسٹوڈنس تنظیموں کی عملی حکومت تھی۔ کالج میں طلبہ اسلحہ لے کر گھومتے تھے، انہوں نے ایسے تمام طلبہ کو کالج سے نکال دیا، ان پر سیاسی جماعتوں نے پریشر بھی ڈالا کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے، ٹرانسفر کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ نا بدلا۔

کالج کے گیٹ بھی انہی کے حکم پر آٹھ بجے بند ہو جاتے تھے، کوئی مال کا لال لیٹ کالج میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، انہوں نے کالج میں یونیفارم کو لازمی قرار دیا۔ ان کا ایک کارنامہ، گریجویٹ کالج کو پوسٹ گریجویٹ منظور کروانا تھا، انہوں نے تب کے پرنسپل پروفیسر ظفر اللہ کاہلوں کے ساتھ مل کر، شہر کی مشہور سیاسی شخصیت سینٹر ایم حمزہ کے ساتھ ملکر اس کام کے لئے عملی جدوجہد کی، اور ایک ناممکن کام کو ممکن کر کے دکھایا۔

پروفیسر عبدالغفار ایک رعب دار شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے پرسنل اور پروفیشنل لائف کے درمیان ایک باؤنڈری بنائی تھے تاکہ کوئی مشکل درپیش نا آئے، جب پرنسپل بنے تو ان کی شخصیت میں مزید بدلاؤ آ گیا تھا۔ ان کا مشن کالج کو بلندیوں تک لیجانا تھا، وہ اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ پرنسپل بننے کے بعد انہوں نے اپنے پرسنل کاموں کے لئے آفس کو کبھی استعمال نہیں کی۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ، مجھے ان سے ایک کام کے سلسلے میں ان کے آفس جانا ہوا، میں جینز کے ساتھ سلیپر پہنے ہوئے تھا، میں ان کے آفس گیا، انہوں کے کہا کہ واپس چلے جاؤ، شام کو گھر آنا، میں جانے ہی والا تھا، انہوں نے مجھے بلایا اور بولے، میں نے منع کیا تھا کہ گھر کے کام گھر میں، دفتر کے کام دفتر میں۔ میں شام کو ان کے گھر گیا، مجھے گلے سے لگا کر بولے، پتر جو میں آج صبح کہا وہ میری ڈیوٹی کا حصہ ہے، ایسی کئی بیشتر مثالیں موجود ہیں۔

وہ ایک سادہ شخصیت کے مالک تھے، وہ بلال پارک رہتے تھے، گاڑی اور موٹر سائیکل ان کو چلانی ہی نہیں آتی تھی، کالج گھر سے واکنگ ڈسٹنس پر تھا تو اکثر پیدل ہی چلے جاتے تھے، اکثر اوقات میں اور میرا دوست وسیم بائیک پر جا رہے ہوتے، ہم انہیں کالج چھوڑ بھی آتے اور واپسی پر یہ عمل دہراتے۔ ساری عمر کرائے کے گھر میں رہے، پھر پرنسپل ہاؤس شفٹ ہو گئے، ذاتی گھر کی تعمیر بھی ریٹائرمنٹ کے بعد شروع کی۔

انکے بڑے بھائی، مہر محمد صادق علاقے کی مشہور شخصیت تھے، ان کے سیاسی اخراجات بھی زیادہ تر یہ ہی سنبھالتے تھے، لیکن مجال ہے کبھی اف تک بھی کی ہو۔

پرنسپل شپ کے دوران ان پر مشکل دور بھی آیا، جب انہوں نے پروفیسرز کو کالج ٹائم میں اپنے کالجز جانے سے روک دیا تو ان کے خلاف گروہ بن گئے، شہر کی سیاسی شخصیات تو ان کی تعیناتی کے پہلے ہی خلاف تھیں، ان پر طرح طرح کے بہتان تراشی کی گئی، دھکمایا گیا، لیکن یہ اپنے مشن سے نہیں ہٹے، ایک وقت یہ بھی آیا کہ انہیں کہا گیا کہ کل سے کالج کو تالے لگے لگیں، کالج نہیں کھلے گا، لیکن انہوں نے ایسا کہنے والوں کو اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اپنے فرض کے سامنے انہوں نے کسی بھی پریشر کو برداشت نہیں کیا۔ ہمیشہ میرٹ پر فیصلے کیے اور اس پر ڈٹے بھی رہے۔

گوجرہ اور اس کے گردونواح کے لوگ بھی ان کو بطور پرنسپل یاد کرتے ہیں۔ ایک مثل مشہور تھی کہ اس کالج کو اصل معنیٰ میں کالج بنایا ہی پروفیسر عبدالغفار نے ہے۔ جتنا عرصہ بھی پرنسپل رہے، رعب کے ساتھ رہے، بنا کوئی ڈر کے فیصلہ کیے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بس کتابیں پڑھتے رہتے تھے اور درود شریف کا ورد کرتے رہتے تھے، ایسے ہی ایک دن درود پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔

پروفیسر عبدالغفار کی زندگی، ان تمام اداروں کے سربراہان کے لئے مشعل راہ ہے جو کہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی وجہ سے صیح فیصلہ لینے سے ڈرتے ہیں، جو ٹرانسفر کے ڈر سے ڈرے سہمے نوکری کرتے ہیں، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ جب آپ حق اور سچ کے ساتھ ہوں تو ڈرنا بزدلی ہے اور یہ ڈر اس امر کا متقاضی ہے کہ آپ راہ حق میں چلنے کی ہمت نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments