میڈیا انڈسٹری کا براہ راست پوسٹ مارٹم



تنخواہ آ جائے گی دو چار ماہ بعد، اور کیا چایئے۔ عمرہ بھی کروائیں گے، یہ کرونا مرونا کچھ نہیں ہوتا کام کرو شاباش آئسولیشن سنٹر سے اندر کی خبر لاؤ۔

چوبیس چوبیس گھنٹے کام کرنے والے مشقتی صحافیوں کو اکثر نیوز روم سے ایسی ہی گفتگو سننا پڑتی ہے اور ستم تو یہ کہ مصنوعی مسکراہٹ ہی سہی لیکن باس کے سامنے دانت نکال کر اس کی ہاں میں ہاں ملانا نوکری کا لازمی جزو ہے۔

اگر آپ میڈیا منڈی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہر دوسرے دفتر کے یہی حالات نظر آئیں گے، جیسی بھی ناگہانی صورتحال ہو مریخی مخلوق کے خدوخال رکھنے والے نیوز ڈیسک کو صرف وہ اینگل چایئے جو چاند پہ بیٹھ کے زمین کا آتا ہے۔

دنیا جہاں سے لڑ کے آپ بڑی سے بڑی خبر بھی ڈھونڈ لیں، تعریف کے لئے باسز کی مقناطیسی زبان کبھی نہیں بولے گی اور اگر خدانخواستہ آپ سے کسی کا پلک جھپکنا بھی مس ہوا تو کم سے کم عالمی جنگ جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لییے تیار رہنا آپ پہ فرض ہے۔

دنیا کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا درس دینے والی یہ انڈسٹری اپنے ورکرز کو غلام ہی رکھتی ہے، ایک ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جس میں آپ پر غلامی فرض ہو جاتی ہے، حتی کہ آپ کو بیٹھنا، اٹھنا، دوستیاں وغیرہ سب کچھ کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

پورا مہینہ کام کے بعد پہلی بات تو یہ کہ تنخواہ دی نہیں جائے گی اگر مل گئی تو پھر ایسا احسان جتلایا جائے گا جو آپ کی سات نسلوں پہ قرض رہے گا۔

کمرشلز کے بھوکے میڈیا پر اگر آپ نے باس کے کسی دوست یا کسی بڑی پارٹی کے خلاف کوئی خبر دے دی تو کبھی بھی اس کے چلنے کی امید نہ رکھیں۔

بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکونز کے سیاہ کارناموں کا تو نام تک لینا بھی گناہ عظیم ہے لیکن جب ان سے معاملات نہ بن رہے ہوں تو ان کے کھانا کھاتے ہوئے منہ ہلانے کو بھی دنیا کا سب سے بڑا ظلم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔

ان سب سے ہٹ کے نیوز روم میں ایک خوشامدی ٹولا بھی ہوتا ہے جس کا کام باس کی ٹائی، سوٹ سے لے کر جوتوں کی تعریف کرنا ہوتا ہے، یہ ٹولا اپنے ہی صحافی بھائیوں کی شکایتیں لگا لگا کر نمبر بناتے ہیں جبکہ اگر کوئی بیچارہ نیا نویلا بندہ ہو تو اس کو ڈرا ڈرا کر ایسا غلام بناتے ہیں کہ اسے آزادی کی باتیں گالی کی طرح لگتی ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان مسلسل ڈر اور خوف کی فضا میں کام کرکر کے خوفناک حد تک غلامی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔

اس شعبہ سے اکثریت وہ لوگ منسلک ہیں جو شہر میں کوئی اور کام ڈھونڈنے آئے تھے ناکامی پر واپس لوٹنے کی بجائے شعبہ صحافت میں فٹ ہو گئے، نہ تو ان کے پاس کوئی ڈگری ہے اور نہ ہی کچھ اخلاقیات۔ ان کے پاس بیٹھ کر صحافی سے زیادہ ٹھیکیدار ہونے کا احساس ہوتا ہے، ان کے نزدیک بڑا صحافی وہی ہے جو اگر پولیس والا مسجد نماز پڑھنے بھی جائے تو اسے اس انداز میں دیکھنا چاہیے کہ وہ نمازیوں کے پیسے نکالنے گیا تھا۔

ایک نیوز روم میں باس پروگرام سے باہر نکلے تو سب نے واہ واہ کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیے، تجزیہ کار نما باس نے کہیں پوچھ لیا کہ میری کون سی بات آپ کو سب سے زیادہ پسند آئی تو پیچھے سے ایک آواز آئی سر جب آپ بولے تو ٹی وی کا والیوم ہی بند تھا۔

میڈیا منڈی میں کامیابی کے لئے آپ کو باسز کے کام جان کی پرواہ کیے بغیر فی الفور کروانے ہوتے ہیں، کاموں کی نوعیت قابل اعتراض ہونے کے باعث بتانے سے قاصر ہوں۔

چار سال کے مختصر صحافتی کئریر میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس پر انشا اللہ بغیر کسی لبادے کے کتاب لکھنے کا ارداہ ہے جس میں آپ دوستوں کو سچ کسی سینسر شپ کے بغیر بتایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments