جان جائے، دمڑی نہ جائے۔ مکمل کالم


جان جائے، دمڑی نہ جائے۔ یہ ہے عالمی نظامِ زر کا دستور لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ خود نظامِ زر ہی تاریخی گرداب میں ہے۔ غالباً عظیم ڈپریشن ( 1930 ) اور 2008 کے مالیاتی کساد کے بعد کووِڈ۔ 19 کے ہاتھوں سب کچھ داؤ پہ لگ گیا ہے۔ عظیم ڈپریشن سے نپٹنے کے لیے امریکہ کے صدر روز ویلٹ نے 700 ارب ڈالرز سے نیوڈیل کا ریاستی انجکشن لگایا بھی تو معیشت قبل از گریٹ ڈپریشن کی حالت میں نہ جا سکی اور اُس وقت کے عالمی شہرت کے معاشی گُرو جان کینز کے نزدیک یہ محض اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات تھی۔

پھر جب 2008 میں عالمی مالیاتی بحران آیا تو امریکہ کو 800 ارب ڈالر بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور آٹوموبیل کارپوریشنوں کو زندہ رکھنے کے لیے خرچ کرنے پڑے۔ ابھی کورونا کی وبا کے ہاتھوں دُنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس دیوالیہ کی جانب رواں ہو گئی ہیں۔ عالمی پیداوار کی نمو 6 فیصد سے کم ہو گئی ہے، جبکہ معاشی ابتلا کو ٹالنے کے لیے امریکہ نے تقریباً 6 کھرب ڈالرز اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے 3 کھرب ڈالر منڈی کی دیوی کی بھینٹ چڑھانے کا بندوبست کیا ہے۔

اور پھر بھی کسی کو کوئی اُمید نظر نہیں آتی کہ سرمایہ داری کی رونقیں بحال ہو پائیں گی بھی کہ نہیں اور کب۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی حالتِ غیر کا کوئی حساب نہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اپیل پر 7 ملکوں کے امیر ٹولے اور 20 ملکوں کے گروپ نے جاری مالی سال کے لیے دست نگر ملکوں سے قرضوں کی وصولی ملتوی کر دی ہے اور امکان ہے کہ اگلے برس بھی یہ فیاضی جاری رہے گی۔ قرض کا پھندہ ڈھیلا کیا گیا ہے، لپیٹا نہیں گیا۔

عجب دہرے معیار ہیں۔ جاپان کے قرض کی مقدار اُس کے جی ڈی پی کا 230 فیصد ہے اور امریکہ میں اس کی شرح 110 فیصد، جبکہ ترقی پذیر ملکوں کے لیے یہ حد جی ڈی پی کا 60 فیصد قرار دی گئی تھی جو کیا برقرار رہنی تھی۔ دہرے معیار کا تعلق عالمی مالیاتی اداروں کے پیمانوں میں بھی صاف جھلکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک منڈی کے چلن کو برقرار رکھنے کے لیے جتنے چاہیں ڈالرز پھونک دیں، لیکن غربت زدہ ممالک پر سخت مالی و مالیاتی قدغنوں پہ زور دیا جاتا ہے اور اس لیے کہ وہ قرض کے اصل زر اور سود کی ادائیگی بروقت کرتے رہیں۔

گزشتہ بحرانوں کی طرح اب بھی کہا جا رہا ہے کہ بے دھڑک نوٹ چھاپو کہ ڈوبتی منڈی کا شکم بھر سکے اور اس میں ایسی مشکل بھی نہیں۔ امریکہ کے وفاقی بینک نے وزارتِ خزانہ کے ذمہ قرضوں کو وزارتِ خزانہ ہی کی سیکورٹیز یا بلوں کے عوض خرید لیا ہے۔ یوں ایک ہاتھ سے دیا تو دوسرے سے واپس ریاستی خزانے میں۔ کیا تماشا ہے اور کسے بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟ یہ سب قرضے امیر ملک عوام کے پیسے اور پبلک خزانے سے لے کر نجی سرمائے کے مفاد میں یوں خرچ کر رہے ہیں جیسے کوئی حلوائی کی دُکان پر ناناجی کی فاتحہ کا اہتمام کرے۔

سرمایہ دارانہ معیشت کے دہرے معیار کا تعلق بنیادی طور پر قوتِ محنت کے بل پر پیدا ہوئی دولت کی محنت کشوں کی بجائے اُمرا کے ایک انتہائی قلیل طبقے کی تجوریوں میں جمع ہونے سے ہے۔ ذرا غور کیجیے! اوکسفم کی رپورٹ کے مطابق دُنیا کے ایک فیصد کے پاس 7 ارب لوگوں سے دُگنی دولت ہے، اس لیے کہ پچاس فیصد انسان ساڑھے پانچ ڈالرز ( 500 روپے ) روزانہ کی دہاڑی پر مجبور ہیں اور یہ کہ اُمرا اپنی دولت کے ایک ڈالر پہ فقط 4 سینٹ ٹیکس دیتے ہیں اور 30 فیصد تک ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

نتیجتاً ہر سال 10 کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیے جاتے ہیں اور ہر روز دس ہزار لوگ پبلک ہیلتھ کیئر تک رسائی نہ پانے کے باعث دُنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ عورتوں کے بلامعاوضہ کام کا تخمینہ 10.8 کھرب ڈالرز ہے، سب سے زیادہ محرومی کا وہی شکار ہیں۔ کورونا کے وبائی بحران نے جس طرح عالمی نظامِ زر اور منڈی کے دھرم کا بھانڈہ پھوڑا ہے، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ کاہے کی مہذب دُنیا تھی جس نے اپنے شہریوں کی صحت اور امراض سے خلاصی کا کوئی موثر نظام ہی ترتیب نہ دیا۔

عالمی صحت و معیشت کے اس بحران میں سبھی پاپولسٹ لیڈر ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کورونا کے خوف میں لوگ نا اہل ترین حکومتوں کو بھی وقت دینے پہ مجبور ہیں۔ اس بحران نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو جہاں مشکل میں ڈال دیا ہے، وہیں اسے دیرینہ مالی و مالیاتی خساروں پہ جوابدہی کے بجائے چھوٹ مل گئی ہے۔ قرضوں کی اقساط ملتوی ہوئیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو گیا اور مالی خسارہ اگر دس فیصد تک بھی پہنچ گیا تو آئی ایم ایف بھی آنکھیں بند رکھنے پہ تیار ہے۔

اوپر سے عالمی مالیاتی اداروں سے ریلیف میں اربوں ڈالرز کی آمد پر نکمے ماہرین کی باچھیں کھلی جاتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے شرحِ سود ایک ماہ میں ساڑھے تین فیصد کم کر کے 9 فیصد کر دی ہے اور حکومت نے کارپوریٹ سیکٹرز اور تعمیراتی صنعت کے لیے وسیع مراعات کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ محترمہ ثانیہ نشتر کو 3000 روپے ماہوار کے حساب سے چار ماہ کے لیے 12 ہزار روپے کی ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں تک مالی امداد پہنچانے میں کافی دقت پیش آ رہی ہے۔ کیونکہ پہلے سے موجود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس کے ترسیل کے نظام کو معطل کر کے احساس پروگرام کا ڈول ڈال دیا گیا۔

پاکستان جو صحتِ عامہ کے عالمی انڈیکس میں ڈیڑھ سو ممالک سے پیچھے ہے اور جہاں غربت و جہالت کے وسیع سائے ہیں، اُس میں کورونا کے ہاتھوں کیا مشکل ہے کہ جو غریبوں اور محنت کشوں کے جمِ غفیر کو درپیش نہیں ہوگی۔ لیکن سوائے جمع خرچ کے حکومت کچھ کر نہیں پا رہی۔ اس کے باوجود کہ اب کافی مالی کشادگی پیدا ہو گئی ہے، حکومت ڈیڑھ کروڑ مستحق لوگوں کو کم از کم اجرت کے مساوی ( 17000 روپے ماہوار) دینے کو تیار نہیں۔

حالانکہ اسٹیٹ بینک نے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے قرض کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے لیے ترغیبات کا اعلان بھی کر دیا ہے، لیکن مفت خور سرمایہ دار طبقے کی حسِ حرص کی تشفی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ صنعتی و کاروباری پہیہ جو کورونا کی وبا سے پہلے ہی نہایت سست روی کا شکار تھا، اچانک صنعتی گہماگہمی پیدا کرنے سے رہا۔ ایسے میں حکومت کی زیادہ تر توجہ دمڑی پہ ہے جان بچانے پہ نہیں۔ لاک ڈاؤن تقریباً ختم ہوا۔

اور جونہی وبا کی ٹیسٹنگ دوگنی ہوئی تو اموات بھی دوگنی ہوتی نظر آئیں۔ تاجر برادری ہو یا مولانا حضرات، کوئی حفظانِ صحت کے تقاضوں کو ماننے کو تیار نہیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے تو مساجد میں باجماعت نماز، تراویح اور جمعہ و عید کی نمازوں کی ادائیگی پہ بندش لگا دی ہے، لیکن پاکستان کا اسلام ہی نرالہ ہے اور مملکتِ خداداد اُس کی تجربہ گاہ۔ پہلے ہی وائرس کے پھیلاؤ میں متقی لوگوں کے اجتماعات خوب کام آئے، اب دیکھتے ہیں رمضان میں خونِ ناحق کس کے ذمہ ہوگا؟ کیا حکومت اور علمائے کرام مذہبی اجتماعات کے باعث وبا کے پھیلاؤ اور ہونے والی اموات کی ذمہ داری لینے کو تیار ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments