اردو ادب میں غیر کا مسئلہ


آنکھیں کھلتے ہی لامحدود و لا متناہی سوالوں کے شیش محل ہوتے ہیں، جس کا ہر دروازہ ایک بھول بھلیاں ہوتا ہے۔ بے بس و مجبور انسان کی مجموعی شناخت اس کنج قفس میں اسرار و رموز کی پرتیں ادھیڑتے، تلاش کرتے ہوئے رائیگاں گزر جاتی ہے پھر بھی وہ سرا نہیں ملتا جس کے بارے میں کہا گیا کہ غور کرو، تمہارے لئے نشانیاں ہیں۔ یہاں میں ’میں‘ ہونے کے باوجود عکس نا آفرید کی شاخوں میں جھولنے، ڈولنے والے پتوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور اسی خیال کو عالم رنگ و بو کے صدیوں پر محیط سفر کے حوالے سے غالب نے محسوس کیا تو کہنا پڑا۔
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں

مشہور سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے یہ کہ کر چونکا دیا کہ انسان محض قدرتی وسائل کا ایک حصہ ہے۔ ہزاروں لاکھوں برس قبل بگ بنگ یعنی ایک بڑے دھماکے سے یہ دنیا وجود میں آ گئی۔ یعنی کائنات کے رقص میں پھیلے، بکھرے ہزار ذرّات میں سے ایک انسان کی حیثیت بس اتنی کہ بقول ہاکنگ ’ایک بڑا دھماکا ایک بار پھر ہماری دنیا کو ختم کر دے گا۔ اور اب ہمیں نئے سیاروں پر زندگی کی کھوج کر لینی چاہیے۔

خدا کی مخلوق یا ڈارون کے اس بندر کی سرشت میں ازل سے بھٹکنا لکھا ہے۔ اور اسی لئے ایجاد و اختراع، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ملنے والی کام یابی، چاند سے مریخ تک کے سفر کے باوجود انسانی شناخت سے غیر کا پرتو نہیں ہٹتا، بلکہ ہر کام یابی سے ابہام کے ہزار آباد و نا آباد جزیرے بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ غیر کا یہ صفحہ اتنا بھیانک کہ 1996ء میں ڈولی بھیڑ کا کلون سامنے آ گیا۔ اور اس پروسس میں انسانی شناخت ڈی ان اے کے ایجاد کے بعد نقل کے طورپر سامنے تھی۔

ایک چہرہ تھا اور نہیں بھی تھا۔ ایک جسم تھا اور نہیں تھا۔ ایک چہرے جیسے ہزار چہرے وجود میں آ سکتے تھے۔ ایک نہ ختم ہونے والا ویران جزیرہ اور صدیوں کے سفر کے بعد بھی انسان کی سرشت میں اپنا ہی چہرہ نا موجود۔ نکولائی گوگول نے انسانی وجود کو مردہ روحوں کے طورپر دیکھا تھا۔ جو مر جانے کے باوجود بھی حکومت کے اعداد و شمار اور بہی کھاتوں میں زندہ تھے۔ سارتر کے یہاں غیر کا تصور مختلف ہے۔

ایک چھوٹا سا بچہ چاکلیٹ کی طرف لپکتا ہے۔
’Wow، I‘ ve always wanted to try that chocolate
’ that was not yours‘
کیوں؟ سارتر کہتا ہے۔ ’Hell is other people‘
اور اس کے بعد وہ کہتا ہے۔
”If there is an other/ what ever، where ever، what ever its relationship with me۔ I have an out side، my nature، my original sin is the existence of the other ’۔ ۔ (Being and Nothingness)

سارتر کے خیالات اور وژن کی ہزار تشریح و تفہیمات ہمارے سامنے آ چکی ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ فرد اور معاشرے پر ہر آنے والا وقت یا موسم اس کی تشریح اپنے حساب سے کرے گا۔ اگر Existence of the other پر بھروسا کریں تو ہماری اپنی شناخت بھی other کے حساب ہی سے ہو گی، جس پر سامنے والا بھروسا کر رہا ہے اور اس طرح معاشرے اور بھیڑ کے باوجود سب تنہا تنہا اپنی صلیبیں اٹھائے اس عالمِ رنگ و بو کے رقص نا تمام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

البیر کامو نے اس Existence کو اپنے ناول outsider میں کچھ زیادہ ہی بھیانک طریقے سے پیش کیا۔ Meursault ایک جوان آدمی ہے اور کہانی کا Narrator بھی ہے۔ اسے ماں کے انتقال کا ٹیلی گرام ملتا ہے، جب وہ ملنے جاتا ہے تو اس کی ماں کو اس کے آنے سے قبل ہی ایک کفن میں سیل کیا جا چکا ہے۔ ماں کو دیکھنے کی ضد نئے نئے واقعات سے رُو شناس کراتی ہے۔ اس کو جیل کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور آخر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس Human Existence کا کوئی Value نہیں ہے۔

یعنی شیکسپئر کے لفظوں میں کہا جائے تو To be and not be، this is the question۔ انسانی شناخت کی حیثیت یہ کہ فرانز کافکا کی کہانی The Metamorphosis کا ایک کردار اچانک ایک صبح اٹھتا ہے تو خود کو ایک کینچوے کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ اس کے شہرۂ آفاق ناول The Trial میں جوزف کے کا کردار اچانک بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ Existence کی جگہ ابہام کی پرتیں انسانی وجود کے آگے سوالیہ نشان لگاتی چلی جاتی ہیں۔ غیر وہ سیاہ صفحہ ہے، جس کی دھند سے غالب بھی شکار ہونے سے نہیں بچ سکے۔ اس لئے صدا لگائی:
؂ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

Survival اور Existence کی تعریف و تشریح کسی موہوم خواب سے زیادہ نہیں، جہاں بقا سے زیادہ فنا کا خیال حاوی ہے۔ After death جیسی کئی کتابوں میں نا معلوم دنیاؤں کے اشارے تو ملتے ہیں مگر انسان کی ذات اس لج لجی خاک سے زیادہ نہیں جسے جانوروں پر اشرف ہونے کے باوجود کچھ ماہ وسال زیادہ دے دیے گئے۔ اس طرح کی گنجلک کتابوں میں عالم ارواح کے خیالی پیکر بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیاوی مشن پر بھیجے گئے انسان کا کوئی Existence نہیں ہے۔

 ہرمن میلول کے ناول ”موبی ڈک” میں سمندر کی سر کش لہروں پر انسان کی فتح تو ہے مگر قدم قدم پر انسانی ذات سوالوں کے دائرے میں بھی ہے۔ ”دی اولڈ مین اینڈ دی سی” میں انسان کے فاتح ہونے کا اشارہ تو ملتا ہے، مگر بوڑھے فشر مین کی جدو جہد رائیگاں خوش فہمی کی طرف اشارہ کر کے، اس سرور کو کم کر دیتی ہے۔ لذت بے ذائقے کا تصور البیئر کامو کے دی پلیگ میں ملتا ہے، جہاں ڈاکٹر ریو ناول کے آخر میں کہتا ہے، ”پلیگ پھر آئے گا”۔

آسمانی و قدرتی آفات کے درمیان خاندان اور معاشرے میں تقسیم انسان کی شناخت نہ محبت و بے وفائی کے جذبے سے قائم ہوئی، نہ ظلم و جبر کی حکومت سے۔ نہ رقابت انسانی شناخت کا حصہ بن سکی نہ عبادت، بندگی اور قربانی کا جذبہ۔ اور اس لحاظ سے دیکھیں تو ہم آنکھیں کھولتے ہی دوسرے کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔ ناسترو دومس کی تیسری آنکھ، ادراک وفہم، دانش و فلسفہ اور علوم و فنون کے صفحوں سے گزرتے ہوئے یہ خیال بے معنی نہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں اور کتنا جانتے ہیں؟ شمس تبریز کو جاننے سے پیش تر کا ایک واقعہ کہ مولانا رومی اپنے شاگردوں کے ساتھ علمی و دینی گفتگو میں مصروف تھے کہ ایک نیم پاگل شخص اندر آ کر کتابوں کے درمیان اشارہ کر کے پوچھتا ہے۔ یہ کیا ہے۔ رومی جھنجلا کر کہتے ہیں، یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا۔
اچھا۔ شمس تبریز اپنی انگشت کو حرکت دیتے ہیں تو کتابوں کے درمیان آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ مولانا رومی پوچھتے ہیں۔ یہ کیا ہے۔ شمس تبریز کہتے ہیں۔ یہ وہ جو تو نہیں جانتا۔

اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انسانی ذات ابھی بھی سات پردے میں قید ہے اور ہر پردہ اس کی شناخت کو غیر اہم بنا رہا ہے۔ یہاں خود شناسی کا ایک مضبوط سلسلہ تصوف کی کتابوں میں آباد ہے، جہاں خدا کی ذات و صفات میں گم یا تحلیل ہونا ہی شناخت سے تعبیر بھی ہے اور نجات کی صورت بھی۔ تصوف میں ایک مقام وہ بھی کہ خدا اور بندے کا فرق مٹ جاتا ہے۔ بایزید بسطامیؒ سے روایت کہ عبادت گزار لمحوں میں کہا کرتے، ’سبحانی ما اعظم شانی۔ ‘ اے خدا دیکھ میری ذات کتنی عظیم۔ منصور حلاّج نے اسی مقام پر آ کر انا الحق کو صدا دی تھی۔ اس طول تمہید کا مطلب صرف یہ کہ غیریت کے افہام و تشریح کی ضرورت اس وقت ممکن ہے جب انسان کی اپنی ذات کی تعریف مکمل ہو۔

آتش رفتہ کی حیثیت اس لٹے ہوئے خواب سے زیادہ نہیں جہاں تاریخ کی پر شکوہ عمارتوں سے تہذیب و تمدن اور ثقافتوں کے کارواں ایک ایک کر کے گزر گئے۔ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی تلاش میں بھی غیریت کا ایک نا مکمل صفحہ آباد ہے۔ تاریخ کے ویران، گرد و غبار میں مدفون کنج سے باہر آئیے تو یہاں بھی ن م راشد لمحۂ حیرت کی وادیوں میں خود کو تلاش کرتے ہیں تو ایک نا مکمل سرا ’لا‘ ملتا ہے۔ اور یہی لا= انسان کی کیفیت انہیں ایشیا کے دور اُفتادہ دبستانوں میں خوابوں کا رومان تلاش کرنے کے لئے لے جاتی ہے۔

یہ سلسلہ خدا سے شروع ہوتا ہے کہ خدا بھی اپنے لئے نصف منکر اور غیریت کے لا محدود حدود میں داخل ہے۔ برزخ کی وادیوں، ہفت افلاک کی خاموشیوں اور اداسیوں کے درمیان کن فیکون کا طلسم ہاتھ آیا تو عزازیل کی مخالفت کے باوجود آدم کو تخلیق کیا۔ عالم رنگ وب و کے مظاہر میں مصور کائنات نے ایمان و یقین کی دہلیز پر پہلا لفظ ’لا‘ کا اتارا اور اس طرح نصف حصہ غیریت کا شکار ہو گیا۔

’میں‘ کی نہیں ختم ہونے والی تلاش کا سلسلہ سائنس، مذہب، تصوف اور ادب تک پھیلا ہوا ہے۔ خدیجہ مستور کا ”آنگن” تقسیم ہوا، لیکن آنگن کے اس طرف جانے والے بھی اپنے تھے۔ ”آگ کا دریا’ کے وسیع کینوس میں قرۃ العین حیدر تاریخ اور فلسفوں کی روشنی میں اسی ’میں‘ کو تلاش کرتی رہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اسی میں کی تلاش میں وادئی سندھ کی سیر کرآئے۔ ان کے ناول ”خس وخاشاک زمانے” میں قدیم کنویں سے بر آمد ہونے والے چھوٹے چھوٹے بونوں کی پر اسرار دنیا در اصل درد اور اپنوں کی دنیا ہے یہاں ایک غم زدہ ماضی ہے اور اپنوں سے بچھڑنے کا غم۔

مرزا اطہر بیگ کے ناول ”غلام باغ” میں انسان کے انسان سے تعلق کی سطح دیوانگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بقول اطہر مرزا، کبیر اور زہرہ کا تعلق عورت اور مرد کے تعلق کو انتہائی شکل تک پہنچنے کی کوشش ہے، جہاں من و تو کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں ’غیر‘ سے پردہ ہی اٹھ گیا۔ منٹو کے کہانیوں کی چیخ میں کہیں کوئی غیر شامل نہیں تھا۔ یہاں اپنوں کا درد ”ٹو بہ ٹیک سنگھ” سے ”انکل سام کے نام خطوط” تک پھیلا ہوا ہے۔ محبوب اور رقیب دونوں کا رشتہ محبت سے ہے اور جہاں محبت ہو وہاں غیریت کا گزر نہیں۔

پریم چند کے مشہور زمانہ ناول ”چوگان ہستی” کا ایک کردار نایک رام، ونے سنگھ سے کہتا ہے جس کے لئے جان ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں، میں ا س کے لئے غیر کیسے ہو سکتا ہوں۔ دشمنی، جنگ کا تصور بھی قلبی واردات سے ہوتے ہوئے ’میں‘ کی شناخت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ روز ازل سے انسان اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے۔ الگ الگ واقعات، حادثات، واردات اور کرداروں سے گزرتے ہوئے ہماری کہانیاں ابھی انسان کی تلاش میں رقصاں ہیں۔ حکایات مثنوی سے مولانا رومی کی آواز بھی سن لیجیے۔
گفت اینک مابشر ایشاں بشر
ما و ایشاں بستۂ خوابیم و خور

ہم بھی انسان اور یہ بھی انسان۔ دونوں سونے اور کھانے کے پابند تو فرق کیسا۔ روز ازل سے یہی قصہ اب تک جاری و ساری ہے۔ اور اور اس پوری انسانی کتھا میں غیریت کا تصور محض فریب ہے۔ ابھی تو خود کو جاننے کا پہلا مرحلہ بھی طے نہیں ہوا۔

دنیا ایک ختم نہ ہونے والی نیند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments