تیری محبت میری متاع



کہتے ہیں کہ جب انسان کا دل دنیاوی خواہشات سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اس کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کی یاد اور شکر کا مستقر بن جاتا ہے۔ ایک ادنیٰ انسان جب خواہشات سے رو گردانی کے لاچار دعوے کرتا ہے تو وہ وقت کے ساتھ اکثر کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا بے اصل ہوگا کہ دل میں دنیاوی حسرتیں دم توڑ چکی ہیں بہرحال اس تحریر میں جو کچھ مندرج ہے اس کا مقصد رب العزت کی یاد اور شکر سے دل کو معمور کرناہے۔ کیونکہ فلاح تو اسی بات سے وابستہ ہے کہ اسے کثرت سے یاد کر کے اس کا شکر بجا لایا جائے تاکہ انسان بامراد ہوجائے۔ یہ تحریر میرے معتبر احساسات کی ترجمانی ہے جو شاید آپ کے دل کی آواز بھی ثابت ہو سکے۔

ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ

آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تو تھا

اے میری گم گشتہ محبت کے محافظ! تیری محبت میری وہ متاع ہے جسے میں بدنصیب اکثر ہی کھو بیٹھتی ہوں۔ اور پھر جب زندگی کے تھپیڑے آہستہ آہستہ میرے وجود کو شل کرتے ہیں۔ تو تو بڑی شدت سے یاد آتا ہے اور میں اپنے بوجھل دل کے ساتھ تیرے در پہ دستک دیتی ہوں، اس آس کو اپنے سینے میں قائم رکھتے ہوئے کہ میرے شکستہ دل کو راحت صرف تو ہی بخش سکتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اک غم زدہ بچہ جب خیر اور شر میں فرق نہیں کر پاتا اوراپنی معصومت میں خود کو نقصان پہنچا کر جب بلکتا ہے تو اپنی ماں کا انچل ڈھونڈتا ہے، اس امید کے ساتھ کہ اس کے ہر نقصان کا مداوا اسی انچل کی ٹھنڈک میں ممکن ہے۔ اے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے رحیم! تو کیسے مجھ غمزدہ کو ٹھکرا کر میری اکلوتی ڈھارس کو توڑتا! کیسے اپنے فضل اور رحمت سے مجھے نہ ڈھانپتا! اے مہربان رب! مجھے اپنی محبت پھر سے لوٹانے پر تیرا شکر بجا لاتی ہوں۔

اے میرے خالق! تجھ سے بہتر تو مجھے کوئی نہیں جانتا، میری ذات کا ثبات تجھ پر مکمل طور پر عیاں ہے۔ تو واقف ہے کہ مسلسل اہمیت دینے سے یہ دنیا بے قدر اور بد مزاج ہو کر حساس روحوں کو روند دیتی ہے۔ یہ دنیا وہ سیراب ہے جس کے بے شمار کواڑ غموں کا بوجھ دل پر ثبت کرتے رہتے ہیں۔ اے باریک بین! تو میری روح کے ہر شگاف کا محرمِ راز ہے۔ میری حساس روح اس دنیا کی کسوٹی پر کھرا اترنے کی خواہش مند نہیں ہے۔ میں تجھ سے دعا گو ہوں کہ مجھے اس دنیا سے بے نیازی عطا کر، کوئی مجھے اچھا سمجھے مجھے اس سے کوئی غرض نہ رہے، کوئی مجھے برا جانے اس میں میرا کوئی نقصان نہ ہو۔ اے قدر شناس اور نفع پہنچانے والے! مجھے عزت کا احساس دینے والا تو ہی ہے۔ میرا سلسلہ خود سے جوڑے رکھنے پر تیرا شکر بجا لاتی ہوں۔

میرے مولا! تیری یاد سے ہی دلوں کو راحت پہنچتی ہے۔ تیری یاد میں وہ تاثیر ہے جو زندگی کو تازگی بخش کر اسے نئی راہ دکھاتی ہے۔ میں کیسے تیری یاد سے غافل ہو سکتی ہوں! تو میرا وہ مستقل زمانہ ہے جسے اگر میں بھلا ؤں گی تو خود گزر جاؤں گی۔ تو ہی میرا سہارا ہے۔ باقی ہر دنیاوی سہارا اس خواب کی مانند ہے جو جب ٹوٹتا ہے تو اپنی کرچیوں سے ان توقعات میں بھی سوراخ کر دیتا ہے جو آنکھوں کی چمک اور دل کی امید ہوتی ہیں۔ میرے لیے یہ احساس مکمل ہے کہ تو میرے ساتھ ہے۔ اے بہترین سہارا بننے والے! میری چشمِ نم اور ہمت شکن دل کا سہارا بننے پر تیرا شکر بجا لاتی ہوں۔

میرے محسن! میں تو اکثر اپنی محرومیوں پر افسردہ ہو کر کسی احسان فراموش کی طرح تیری نعمتوں سے منہ پھیر نے کی وقتی جسارت کر بیٹھتی ہوں۔ شکر کی طاقت سے اپنی ناکامیوں کو دور کرنے کی بجائے مایوسی کو دل کی بستی میں جگہ دے بیٹھتی ہوں۔ تیری عطا کردہ ساری خوشیوں کو پس پشت ڈال کر خود کو ہلا کت میں ڈال دیتی ہوں۔ اے رفیق و مددگار! مجھے بے راہ پا کر پھر مدد بھی توہی تو بھیجتا ہے یقینا میری غمذدگی تجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔

تو میرے اشکوں کو چن کر، میرے زخموں پر مرہم رکھ کر، میرے دل میں الفت ڈال کر مجھے پھر سے شکر کرنا سیکھاتا ہے۔ تاکہ میں زندگی کی خوشنودی کو اپنے دل میں بسا کر تیر ی نعمتوں کی قدردانی کروں۔ میرے مالک! مجھے اپنے ہر سجدہِ تشکر کی قسم! جس سے تو بڑی محبت سے میرے دل میں سکون پیدا کرتا ہے، تجھ سے وابستہ ہونے کا احساس ہی مجھے زندگی سے جوڑتا ہے۔ اے زندگانی بخشنے والے! مجھے ہر بار اتنی محبت سے زندگی کی طرف لانے پر تیرا شکر بجا لاتی ہوں۔

میرے سوہنے رب! تو سراپا محبت ہے، محبت صرف تجھ کو جچتی ہے۔ ہر محبت تیری ذات کے بعد، اور صرف تیری خوشنودی کے لیے۔ باقی سب وہ بے سود افسانے ہیں جن کے مقدر میں صرف فراموش ہونا لکھا ہے۔ یہ تیرا حق ہے کہ تیرا بندہ تیری محبت کو پہچان کر اس کی خوشبو سے اپنی زندگی کو ہر وقت معطر رکھے۔ یہ تیری الفت ہی ہے کہ تو دریدہ دلوں کو نئے سرے سے جوڑ کر، ان میں اپنی محبت بڑھ کر، انہیں اپنی رحمت سے اپنا بنا لیتا ہے۔

اے وہاب! میں تو ہر اس خیر کے صدقے جسے تو میری جھولی میں ڈال دے۔ مجھے اپنی دائمی محبت عطا کر دے جو مجھ سے پھر کبھی گم نہ ہونے پائے۔ تو اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ کارسازی کا اختیار تیرے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو تو بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو تودکھائے۔ اپنے بہترین انعام اور اپنے بخیر انجام کی منتظر تیری عاجز بندی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments