لاک ڈاؤن میں تنخواہ لینے کی سزا


تعلیمی ادارے بند ہونے کے چار پانچ دن تک تو ہوش ہی نہ رہا کہ میں کام والی ہوں یا کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے سے منسلک ایک ٹیچر۔ خیر ہوش جو آیا تو سوچا کہ اچھا آن لائن کلاسیں ہوا کریں گی۔ اسی کی بھیڑ چال چل رہی ہے۔ ہائے رے میری قوم کا جنون اور اف رے میری قسمت۔ یہ سلسلہ کیونکہ چائنہ سے شروع ہوا تھا تو چائنہ کا ہی ذکر کرتی ہوں پہلے کہ اگر کوئی قدم بحیثیت قوم کے اٹھانا پڑتا ہے تو ہر فیصلہ پھر بحیثیت قوم کے ہی ہونا چاہیے۔ یہ نا ہو کہ آدھے تیتر آدھے بٹیر۔

یہاں تو ایک صوبے میں آٹھویں تک سب پاس تو ایک صوبے کے سوچنے کی عمر ہی نہیں پوری ہو رہی۔ پھر ایک جگہ کیمبرج کے متوقع گریڈ دینے پہ زور تو ایک جانب اکتوبر نومبر میں امتحان لینے پہ بحث۔ کسی ایک بات پہ یہ متفق تو ہو جائیں۔ کوئی تو یہ کہہ دے کہ آپ سب کو بحیثیت قوم یہ کرنا ہے۔ پڑھائی یوں ہو گی، امتحان یوں لیے جائیں گے یا نہیں لیے جائیں گے۔ سب نے اپنی ہی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائی ہوئی ہے۔

چائنہ نے پہلے مرحلے میں مشہور ترین اساتذہ کے لیکچرز ریکارڈ کیے اور اس مقصد کے لیے ایک چینل مختص کر دیا جو سراسر تعلیمی سرگرمیوں پہ مبنی تھا۔ اس میں ورزش سے لے کر آن لائن لیکچرز دیے جاتے۔ کچھ اقدام جونئیر اسکولز کے لیے تھے تو کچھ سینئر اسکولز کے لیے۔ اس مد میں چائنہ نے انٹرنیٹ کی رفتار کو بہتر بنانے کے لیے تین بڑی ٹیلی کام کمپنیوں کو اپنی بینڈ وتھ 90 ٹیرا بائٹز تک مہیا کرنے کا کہا جس سے پانچ کروڑ طلباء اور تقریباً 6 لاکھ اساتذہ آن لائن کلاسوں سے مستفید ہو سکے۔

اب بطور ٹیچر کے میری کمپیوٹر میں صلاحیتیں دوسرے اساتذہ کی نسبت کافی زیادہ ہیں اور یہ سراسر میرے شوق پہ مبنی ہے ورنہ مضمون تو میرا کیمسٹری ہے اور شوق لکھنا اور نت نئے کھانے بنانا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس اضافی تعلیم کے باعث میں نے کمپیوٹر پہ آن لائن کلاسوں کا کام خود ہی شروع کر دیا۔ اور گوگل کلاس روم کا حصہ بنی پھر یہ پریشانی کہ اب ویڈیو کا کیا کروں۔ خیر پھر ایک سافٹ ویر انسٹال کیا اور چار ویڈیوز بنا کے ڈال دیں۔

شروع شروع میں جب اپنی بھونڈی آواز و یڈیو پہ سنی تو دل دہل گیا۔ کچھ دنوں میں فرمان جاری ہوا کہ نئے ای میل ایڈریس بنائیں ا ور گوگل کلاس روم جوائن کریں۔ مجھے سارا کام نئے سرے سے کرنا پڑا اور اس مرحلے میں کافی رکاوٹیں آئیں۔ سب سے زیادہ برا حال ان اساتذہ کا تھا کہ جن کو کمپیوٹر کی اتنی معلومات نہ تھیں۔ کافی لوگ تو پھوٹ پھوٹ کے روئے۔ مجھے لگا راشن بانٹنے جتنا ثواب تو اس میں بھی مل جائے گا تو خدمت خلق شروع کر دی۔

ابھی تھوڑ ا ہی سنبھلے تھے کہ بچوں کا ہوم ورک اساتذہ کی جانب سے آنے لگا۔ ایک ایک شیٹ میں بیس بیس سوال اور تین تین ویڈیو مع دھمکی کہ اگر یہ سب رات تک نہیں ہوا تو صفر کے لیے تیار ہو جائیں۔ میرے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ مطلب سیکھنے کا عمل رک چکا تھا اور ایک اور ذہنی عذاب شروع ہو چلا تھا۔ اساتذہ بے ہنگم کام اپ لوڈ کیے جا رہے تھے جیسے کسی بچے کے ہاتھ میں نئی نئی واٹر گن آتی ہے اور وہ اندھا دھن پچکاریاں مارتا چلا جاتا ہے۔

بچے قید میں تو تھے ہی، چڑ چڑے ہونا بھی شروع ہو گئے۔ ہم سب کو تو یہی لگتا ہے نا کہ پریشان صرف ہم ہو سکتے ہیں بچے تو بہت خوش ہیں گھر میں۔ کوئی تو کچھ بتاتا کہ جب یکم جون سے اسکول کھلنے ہیں تو یہ سب ڈھکوسلہ کیوں۔ کیوں صرف سیکھنے کا عمل نہیں رہ سکتا۔ کیوں یہ لمبے لمبے اذیت زدہ کام اور ٹیسٹ۔ کوئی تو کچھ سنتا۔ کوئی تو شیڈول ہو۔ حملے پہ حملہ، کام پہ کام، دھمکیوں پہ دھمکیاں۔

خیر جناب کوئی 20 دن بعد تنخواہ مل گئی جو سراسر مجھے لگا کہ گویا گھر بیٹھنے کی سزا ملی ہو۔ نوکری کا کام دس گنا بڑھ گیا تھا۔ پھر نیا فرمان آیا کہ اب آن لائن کلاسیں لائیو ہوں گی اور اس کے لیے ہمیں نیا سافٹ ویئر سیکھنے کا کہا گیا۔ بچوں کا کیمرہ اور مائک بند ر کھوانے کی ہدایات تھیں۔ کئی بار کلاس کے دوران لگا کہ میں ایک اندھے کنویں سے مخاطب ہوں۔ ایسے میں، میں نے ایک مانیٹر بنایا کہ جب میری بات مکمل ہو جائے تو وہ انگریزی میں جواب دے ’آل کلیئر‘ اب ہونے یہ لگا کہ آٹا گوندھتے ہوئے واٹس ایپ آتا کہ ایکسل شیٹ پہ فلاں ڈیٹا بنا کر بھیجیں۔ ۔ ’ابھی۔ ‘

دن رات صبح شام، موبائل کو ہاتھ لگاؤ تو سو سے کم میسج نہیں اور کم از کم دس گروپ کا مجھے حصہ بنا دیا گیا۔ سو میسج اساتذہ کے گروپ میں ہوتے تو دو سو میسج بچوں کی کلاس کے گروپ میں ہوتے۔ اعصابی دباؤ حاوی ہونا شروع ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ اساتذہ ایسے بھی تھے کہ جن کے پاس ایک لیپ ٹاپ، دو موبائل اور چار بچے تھے۔ اور اس پہ معمولی اسپیڈ کا انٹرنیٹ۔ کلاسیں سب کی ایک ہی وقت پہ۔ ایسے میں آن لائن آتے ہی نیٹ کا حوصلہ جواب دے دیتا۔ ارے جناب کہاں گئیں ساری حکمت عملیاں۔ کوئی تو سنے۔ کسی کو تو ہوش آئے۔

نئے سافٹ وئر پہ کلاسیں لینی شروع کیں۔ صبح صبح اٹھنے کی عادت ختم ہو چکی تھی۔ ہر کلاس لینے سے پہلے اس کی پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنانا۔ ہر کلاس ختم ہو نے پہ اس کی ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنا، پھر اس کا سائز کم کر کے اسے اپ لوڈ کرنا۔ بچوں کے کام چیک کرنا جو رات 4 بجے بھی آتے ہیں اور پھر یہ بھی سننا کہ یہ اتنے میسج کس کے آتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی ٹائم ہے میسج کا۔ ایک دن تو چڑ کے میں نے اپنے میاں کو اپنی بیٹی کی کلاس کے گروپ میں شامل کروا دیا۔ پھر اس کے بعد ایک مکمل خاموشی چھا گئی۔ کوئی شکایت نہیں کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments