لاک ڈاؤن میں تنخواہ لینے کی سزا


نجانے لاک ڈاؤن میں عشق پہ لکھنے کی اتنی جرات کہاں سے آ گئی کہ مجھ سے آس پاس کے حالات نظر انداز ہو گئے۔

بچپن ہی سے میرا شمار اسکول کے شرارتی بچوں میں ہوا کرتا تھا۔ ہر بات اور ہر معاملے میں شرارت کا عنصر پیدا کر لینے کی ذہانت تھی۔ دسویں جماعت کی بات ہے۔ ہماری کلاس چوتھے فلور پہ واقع تھی۔ بریک کے بعد ہم سب کلاس میں چلے گئے۔ کیونکہ اسکول خاصا بڑا تھا تو اس وقت بھی سب کو اتنا شعور دیا گیا تھا کہ ایک لمبی گھنٹی بجے تو اسکول کے میدان میں آ جانا ہو گا۔ جسے آج کل ایمرجنسی ڈرل کہتے ہیں۔ بریک کے بعد ہمارے گروپ میں سے ایک لڑکا گیا اور چیونگ گم گھنٹی پہ چپکا کے آ گیا۔

اب اس وقت کیمرے تو ہوا نہیں کرتے تھے تو پکڑے جانے کا کوئی قوی امکان نہیں تھا۔ اسکول میں بھگدڑ مچ گئی۔ کسی کو گھنٹی دیکھنے کا خیال نہ آیا اور پرنسپل سمیت سب میدان میں جمع ہو گئے۔ ہم نے دبے اور محتاط لفظوں میں سب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ ہوا ہو، دل اندر سے ڈر جو رہا تھا۔ اساتذہ کو حیلے بہانوں سے بتانے کی کوشش کی مگر سب اتنا گھبرائے ہوئے تھے کہ بوکھلاہٹ میں کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔ چھٹی ہونے تک سب وہیں بیٹھے رہے اور اگلے دن بھی چھٹی رہی۔ گھنٹی شاید اس لیے بند ہو گئی تھی کہ جل گئی تھی اور چیوئنگ گم وہ لڑکا جا کے چپکے سے اتار آیا تھا۔

ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ گھبرائے ہوئے تو سب پہلے سے ہی تھے۔ جمعہ، 13 مارچ 2020 کو اسکول میں پی ٹی ایم تھی لہٰذا شام میں فارغ ہوئے۔ شک تو تھا کہ سندھ کی طرح اب پنجاب بھی کوئی قدم اٹھانے کو ہے، سو اپنی کچھ کتابیں اسکول کی الماری سے نکال کے ساتھ رکھ لی تھیں اور ہوا بھی یہی۔ گھر آتے آتے تعلیمی ادارے بند ہونے کا فرمان جاری ہو گیا۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا کہ اعلان ہوتے ہی کسی نے جراثیم کا اسپرے کرنا شروع کر دیا ہو مگر ہر سمت ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔

ہاتھ پیروں کی تو جیسے جان ہی نکلی جا رہی تھی ایک انجانے خوف سے۔ کچھ دن قبل ایک مووی دیکھی تھی برڈ باکس، اس میں ایک نا نظر آنے والا وائرس سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ بچتا وہی ہے جو گھر میں رہتا۔ میں نے رستے سے ہی میاں کو کال کی اور تیار رہنے کو کہا۔ گھر کے اندر بھی نا گئی اور ضروری دوائیاں اور سامان لینے نکل کھڑے ہوئے۔ حیرت انگیز طور پہ جو سینیٹائزر کی دو چھوٹی بوتلیں بمشکل ملی تھیں وہ ایک مہینہ گزر جانے پہ بھی آدھی نہیں ہوئی ہیں۔

خیر سامان لیا اور گھر آتے ہی سارے کپڑے لانڈری میں ڈالے۔ ایک دن قبل تک ایسا کچھ نہیں تھا مگر میڈیا نے جیسے کوئی جادو سا کر دیا تھا۔ نہا دھو کے ہوش ٹھکانے آئے۔ پہلے مرحلے میں 5 اپریل تک چھٹیاں دی گئی تھیں جو بعد میں بڑھا کے 31 مئی کر دی گئیں۔ ساتھ ہی کھلے الفاظ میں بتایا گیا کہ یہ چھٹیاں تعطیلات کی مد میں آئیں گی لہٰذا اسکول یکم جون سے کھول دیے جائیں گے۔ مگر جناب بھگدڑ صرف ہمارے اندر ہی تو نہیں مچی تھی، یہ تو وہ گھنٹی بجا کے چھٹی ہونے والا حال ہوا تھا۔

کوئی کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہ تھا۔ اگلے ہی دن سے سوشل میڈیا پہ دیسی حکیموں نے سر اٹھایا اور یقین کیجیے کہ اگربتی سے لے کر کلونجی تک مارکیٹ سے غائب ہو گئی۔ جو لوگ زندگی میں کبھی مسجد نہیں گئے تھے وہ سب سے اگلی صف میں کھڑے ہونے لگے تا کہ مسجد کی صورتحال سوشل میڈیا پہ بتا سکیں۔ سوشل میڈیا دو گروپ میں بٹ گیا ایک سنجیدہ اور سوبر مسلمان اور دوسرے وہ جو ہنسی مذاق کو جینے کا ایک ضروری عنصر سمجھتے ہیں۔

ایک لطیفے پہ جہاں ایک ہزار لوگ ہنستے وہیں پچاس افراد اس پہ گالیاں بھی لکھتے۔ غرض یہ کہ کسی کا کچھ بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کرے۔ جن لوگوں نے دہائی دے دے کے کہا کہ پندرہ دن سے زیادہ کا سودا نہ لینا ورنہ گناہ ملے گا، غریبوں کا حق نا مارنا انہی لوگوں نے اگلے پندرہ دنوں میں باہر نکلنے پہ گالیاں لکھنا شروع کر دیں کہ پہلے سے سودا کیوں نہ لیا۔ دور دور سے رشتہ داروں کے فون آتے خیر خیریت کے اور یہ پوچھنے کہ پنجاب کا اسکور زیادہ کیوں ہو رہا ہے سندھ سے۔ یہ زیادتی کیوں۔ کچھ لوگ کہتے کہ روز بارش اچھی ہے تو کچھ لوگ کہتے کہ روز بارش سے جراثیم بہت خوش ہوں گے۔ کئی بار تو خواب میں ناچتے ہوئے جرثومے کا بھی گمان ہوا۔

میرا نوکر جو کہ پہلے ہی والد کی وفات پہ گیا ہوا تھا اسے اگلے آرڈر آنے تک وہیں روک دیا گیا اور یہ خبر مجھ پہ بجلی بن کے گری، سوئپر کو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔ پہلے دن جو آٹا گوندھا تو محسوس ہوا کہ باکسنگ بیگ بلا وجہ ہی لیا، یہ پریکٹس ہی کافی تھی۔ والدہ کے مکوں کی طاقت کا بھی بخوبی اندازہ ہوا۔ اگلا مرحلہ جھاڑو پوچا اور کپڑے دھونے کا تھا۔ کر تو لیا مگر اس دن رات گئے تک ماں، دادی، نانی یاد آتی رہیں۔

اس رات نجانے کتنی ہی ملٹی وٹامن پہ ریسرچ کر ڈالی۔ ان چھٹیوں میں بہت کچھ کرنے کا تہیہ کیا مگر۔ اس مگر کا جواب آپ کو آگے سمجھ آ جائے گا۔ ابھی بہت کچھ پہ روشنی ڈالتی ہوں۔ مثلاً راشن تقسیم میں ہاتھ بٹانے کا سوچا۔ سوشل میڈیا کی مدد سے کراچی کی مشہور ترین این جی او ڈھونڈی۔ ہر وقت اس کا شور اور واہ واہ۔ مگر پھر بلدیہ ٹاؤن سے لے کر اورنگی ٹاؤن تک ڈھونڈ لیا۔ ان کا راشن کہیں پہنچا ہی نہ تھا۔ ہاں البتہ کچھ ٹینکر والوں کی دکانوں میں بکتا ہوا دیکھا گیا۔

میں نے کچھ ایڈریس دیے تھے۔ پندرہ دن بھی وہاں کچھ نہ پہنچا تو میرا دل کھٹا ہو گیا۔ چار شناختی کارڈ نمبر احساس فنڈ کے لیے بھیجے، ان کا بھی کوئی اتا پتا نا تھا۔ راولپنڈی میں بھی کچھ کوششیں کیں مگر جواب تسلی بخش نہ آیا تو بس دو جگہ اپنے شاگردوں کو کام کرتے پایا تو انہی کا کچھ ہاتھ بٹا دیا۔ اچانک سے محلے میں کدال لیے مزدوروں کی پریڈ دیکھی جنھیں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر کچھ ڈکیتیوں کا سنا تو یہاں سے بھی دل اٹھ گیا۔ مگر خدا دل میں ڈال ہی دیتا ہے کسی طرح، جہاں رزق پہنچانا ہوتا ہے، تو کچھ نہ کچھ بندوبست ہو ہی گیا۔

اب اگلی پریشانی تھی کہ ہمیں تنخواہ ملے گی کہ نہیں۔ میں ہر چھٹیوں میں ایک بات ضرور لکھتی ہوں کہ جنوری اور چھٹیوں میں والدین کا ایک مخصوص گروپ حرکت میں آجاتا ہے۔ جن کا سراسر یہ موقف ہوتا ہے کہ فیس نہ لی جائے۔ فیس بڑھائی نہ جائے۔ بندہء خد ا آپ سے آخر کس نے کہا کہ اتنے عظیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھائیں کیونکہ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر سو میں سے تین بچوں کی فیس نہ آئے تو اعلیٰ حکام، پرنسپل اور اساتذہ کو تنخواہ روکنے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ آپ تو پھر دو ماہ فیس معاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو یہ نت نئی فضول کی پریشانی سر پہ تھی اور آئندہ آنے والے دن اپنا حال خود بتا رہے تھے کہ جس عوام کو یہ بات نہیں سمجھ آ رہی کہ دائروں میں چپل رکھ کے جگہ نہیں گھیرنی بلکہ لائن میں خو د بھی کھڑے ہونا ہے، انہیں آپ دوسری احتیاط کیسے سمجھائیں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments