ماضی کے دھندلکوں سے چند اوراق


آج کل ہر طرف ایک ہی موضوع ”قرنطینہ“ زیر بحث ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی تھم سی گئی ہے ایک ایک دن، ایک ایک لمحہ بھاری ہو گیا ہے۔ کرونا وائرس سے دنیا میں خوف اور وحشت کا چلن ہوا، لاک ڈاؤن نے سب بلاکڈ کر دیا، گویا انسانی دنیا تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ تیزی سے چلتے ہوئے ماہ و سال اب گھنٹوں اور منٹوں میں رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ چمکتی صبحیں اور ڈھلتی ہوئی اداس شامیں عجیب کرب کی کیفیت سے دوچار کر رہی ہیں۔

کرونا وائرس نے دنیا پر سکتہ طاری کر دیا ہے۔ گویا ستاروں نے راستہ بدل لیا ہو اور آسماں، ہنستے بستے انسانوں سے روٹھ گیا ہو۔ مشرق تا مغرب انسانی زندگی صدمات کی زد میں ہے۔ لاس اینجلس سے شانزے لیزے اسٹریٹ تک رنگ و نور کی محفلیں اجڑ چکی ہیں۔ بیت اللہ سے بیت المقدس تک سناٹا ہے، بے قراری ہے، جبین شوق سجدوں کی منتظر اور روح مضمحل ہے۔ بقائے ذات کا اصول تنہائی میں مضمر ہے، شاید بقائے زندگی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہو!

روزمرہ معمولات سے یوں دستبرداری شدت غم کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ ادبیات کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کتابیں بہترین دوست ہیں۔ آپ کی تنہائی اور آپ کے دکھ سکھ بانٹتی ہیں۔ یہ آپ کے آنسووں کو اپنی خامشی میں سمو لیتی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ان میں جیتے جاگتے مگر خاموش ہمسفر ملتے ہیں، ابھرتے ڈوبتے مناظر بھی اور یادوں کی کہکشاں بھی۔

برسوں گزر گئے گھر کی بیٹھک میں طاق پر منتظر کتابوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ گردآلود کتابیں جیسے شکوہ کُناں ہوں حزن وملال سے دل ڈوبنے لگا۔ بیتی ہوئی یادوں نے کتابوں سے بے پناہ محبت کے جذبے سے سرشار کر دیا۔ تین دھائیوں پر محیط بے لوث تعلق نے یادوں کا میلہ سا لگا لیا۔ کتابوں سے سوکھے پھول چننے کا مشغلہ یقینا قرنطینہ کی اذیت اور جھنجھلاہٹ کو کم کر سکتا ہے۔ میلوں دور قرنطینہ کیے قارئین کو شریک کرنا، بے شک تنہائی کا احساس کم کرنے کی جستجو ہے۔

سینکڑوں کتابوں میں سے ان کا تذکرہ، جن کے صفحہ اول پر خلوص کے دستخط ثبت ہیں۔ جمعہ بخیر تیسری مرتبہ شائع ہونے والی کتاب، جناب ضیا شاہد کے کالموں کا مجموعہ ہے آج سترہ سال بعد ایک بارپھر پڑھنے لگا تو ایک نئے اسلُوب نگارِش سے متعارف ہوا۔ انہوں نے پاکستان کے صحافتی افق پر نصف صدی سے کہکشاں سجا رکھی ہے۔ پاکستان میں پاپولر جرنلزم کی بنیاد رکھی، ”اشرافیہ“ اور ”خواص“ تک معدود صحافت کو عام عوام کی آواز بنا دیا۔

مقبول عام صحافت ان کا طُرہَ امتیاز ہے مگر جمعہ بخیر ان کی ذات اور شخصیت کا پرتو ہے۔ یوں کہے، یہ ”علامتی“ کالم نویسی کہیں کہیں انشایہَ نگاری اور تہ در تہ حقیقت نگاری کا عکس لیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے کالم نگاروں کی تحریروں میں اکثر و بیشتر ضیا شاہد کے کالموں کا تاثر ابھرتا ہے یہ کتاب دراصل پانچ دھائیوں کی سیاست، صحافت اور تاریخ کا نچوڑ ہے۔ پاکستان میں اردو صحافت کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی گزشتہ سات دھائیوں میں کالم نگاروں کی درجنوں جلدوں پر مشتمل تحریروں پر ”جمعہ بخیر“ کے 49 کالم بھاری ہوں گے۔

مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال کے فرزندارجمند جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی خودنوشت سوانح حیات ”اپنا گریباں چاک“ تاریخی اثاثہ سے کم نہیں۔ اس کی تدوین میرے محترم دوست کالم نگار تنویر قیصر شاہد نے بڑی محنت شاقہ سے کی۔ 2003 ء سے میں شائع ہونے والی اس کتاب میں ڈاکٹر جاوید اقبال سفر چین سے متعلق ایک چینی بچی کا ذکر کرتے ہوئے صفحہ 131 پر لکھتے ہیں کہ ”دیوار چین دیکھنے کے موقع پر سات آٹھ سال کی بچی بھی ہمراہ تھی راستے میں میرے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اس نے پوچھا“ کیا آپ کے ہاتھوں میں ستارے ہیں ”میں نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ کھول دیے۔

کہنے لگی:“ آپ کے ہاتھوں میں ستارے نہیں کیونکہ آپ مزدوری نہیں کرتے ”پھر اس نے ہاتھ کھول کر مجھے دکھائے جن پر مشقت کے سبب گٹھے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا۔ “ یہ ستارے آپ کے ہاتھوں میں کیسے آ گئے ”بچی نے جواب دیا“ میں اپنے اسکول میں پڑھائی کے بعد روز تین گھنٹے زمین کی گوڈی کرتی ہوں اس میں بھل ڈالتی ہوں، سبزیاں اُگاتی ہوں، انہیں پانی دیتی ہوں۔ میرے ہاتھوں میں ستارے اسی مزدوری کا انعام ہیں یہ کتاب کم وبیش دو صدیوں کی مستند دستاویز ہے۔

چند سال قبل سنئیرصحافی علی شیر گلشن نے اٹلی کی معتبر ترین جرنلسٹ ”اوریانا فلاسی“ کی چند عالمی رہنماؤں کے انٹرویوز ”انٹرویو ود ہسٹری“ دی۔ 376 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1976 ء میں شائع ہوئی اس میں دنیا کی 16 شخصیات ہنری کسنجر، یاسر عرفات، اندرا گاندھی، ذولفقار علی بھٹو، رضا شا پہلوی اور دیگر کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ تاریخ سے مکالمہ ہے۔ موجودہ دور کے کسی بھی انٹرویو نگار کے لیے یہ نادر نمونہ ہے۔ ”اوریانا فلاسی“ کی شہرت کو بام عروج پر پہنچانے والا ناولletter to a child who never born، جس میں وہ اپنے جسم میں ایک اور روح سے سوالات کرتی ہیں۔

اس ناول میں اوریانا اُس بچے سے مکالمہ کرتی ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا۔ یہ اپنی نوعیت کی انوکھی کہانی ہے جو لکھنے والے کی آپ بیتی بھی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے گلے میں آواز رندھ جاتی ہے اور آنکھوں میں آنسووں چھلک جاتے ہیں۔ اس کے المناک انجام پر پڑھنے والے کو چپ سی لگ جا تی ہے۔ اٹھائیس سال بعد ایملی برونٹے کا کلاسک ناول ”;Wuthering Heights دوبارہ دیکھا تو کیتھرین کا مرکزی کردار تصور میں جھاکنے لگا۔

کیتھی اس ناول کی ہیروئن ہے جس نے ایملی برونٹے کو ہمیشہ کے لیے جاوداں کر دیا۔ یہ ناول 1847 میں شائع ہوا۔ محبت کی اس لازوال داستاں نے ایملی برونٹے کے گاؤں کی رہاش گاہ کو میوزیم کی صورت چاہنے والوں کے لیے عقیدت کا ساماں کر دیا ہے۔ یہ یارکشا ئر کے ایک بلند ترین مقام Haworth میں واقع ہے۔ ایملی 1818 ء میں پیدا ہوئیں۔ دو صدیوں سے اداس اور ویران حویلی اس میں بسنے والوں کی یاد میں نو حہ کناں ہے دس سال قبل بریڈ فورڈ میں مقیم ایک دوست خالد کھٹانہ کے ہمراہ گھنٹوں مسا فت کے بعد پہنچا۔

ایملی برونٹے کا یہ پریم نگر محسور کن ہے۔ خطوط نویسی بھی ادب کی ایک جدا صنف ہے جس کی الگ چاشنی ہے ہمارے ہاں غالب کے خطوط، ابوالکلام آزاد کے خطوط، “ غبار خاطر ”، خیر اس میں درجنوں حوالے ہیں 1974 ء میں چھپنے والی کتاب“ جھوٹے روپ کے درشن ”برسوں زیر مطالعہ رہی، کرونا وائرس کے خوف سے قرنطینہ کے آسیب زدہ ماحول میں محبت کی لازوال کہانی ایک بار پھر پڑھنے سے ماہ و سال کے حصار سے آزاد ہو کرماضی میں پناہ گزیں ہو گیا۔

محترم راجہ انور طویل جلاوطنی کے بعد وطن لو ٹے تو“ خبریں ”میں مستقل کالم لکھتے رہے 2001 ء روزنامہ خبریں اسلام آباد کے آفس میں طویل ملاقات رہی ایک“ رومانوی ہیرو ”سے عقیدت مندی کا ناتا قائم رہا۔ ان کی سلامتی کے لیے چاہتوں کے ڈھیروں پھول، دعائیں۔ اس کتاب کے گزشتہ 50 سالوں میں سینکڑوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ نامور ناول نگار نسیم حجازی کی“ داستان مجاہد ”مستنصر حسین تارڑ کا ناول“ پیار کا پہلا شہر ”۔ امریکہ میں مقیم محترمہ فرحانہ قاضی کیInvisibleMartyrs“ اور دنیا بھر میں 15 کروڑ سے زیادہ بکنے والی کتاب جس کا 80 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوا پاولو کوئلو کا مشہور ناول ”الکیمیسٹ“ ایک بار پھر نظر سے گزری۔

گزشتہ چند سالوں سے کتابوں کی اشاعت میں وہ بانکپن نہ رہا جو دو تین دھائیاں قبل تھا پھر بھی کچھ لکھنے والوں نے روایت قائم رکھی۔ کالم نگار جناب مظہر برلاس کا نذرانہ عقیدت ”شہید مشرق“ 2009 ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شخصیت کا معتبر حوالہ ہے۔ مزاح نگار اور کالم نویس جناب نعیم مسعود کی ”طنزیالوجی“ طنزومزاح کے حوالے مقبول ہے۔ محترمہ شاذیہ اکبر کا شعری مجموعہ ”محبت حسن کامل ہے“ اکتوبر 2016 ء میں شائع ہوئی

میرے جگنو! میرے جاناں
فسوں گر ہے یا عامل ہے
مجھے تو بس یہ ہے کہنا
محبت حسن کامل ہے
جناب اعتبار ساجد کا شعری سفر ”میرے خط مجھے واپس کر دو“ 2001 ء میں چھپا
میری نگاہ شوق سے کیسے نہاں تھے تم
حیرت سے سوچتا ہوں اب تک کہاں تھے تم
یہ خال وخد، یہ پھول سے لب، چاند سی جبیں
تم سچ بتاو! آج سے پہلے کہاں تھے تم
زکریا شاذ کی شعری تخلیق ”خاموشی کی کھڑکی سے“، نوجواں شاعر منصور راٹھور کی کتاب ”چلو میں ہار جاتا ہوں“ 2003 ء میں شائع ہوئی۔ بزرگ شاعر جناب خورشید خان خورشید کی ”سروں کے چراغ“۔ میرے بھائی، میرے دوست ایم یامین کی 2012 ء میں شائع ہونے والی نظموں کی کتاب ”دھوپ کا لباس“، جناب اکرم سہیل کی تصنیف ”نئے اجالے ہیں خواب میرے“، جناب احمد عطاء اللہ کی شاعری ”ہمیشہ“ اور ”والہانہ“، سید سلیم گردیزی کا سفرنامہ ”میں نے کشمیر جلتے دیکھا“، پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور عباسی کی ”سیاست کشمیر“، مکرمی پروفیسر یعقوب شائق کی سوانع عمری ”عمر عزیز رفت“، سینئر صحافی خواجہ اے متین کی عنایت، کالم نویس عبدالحفیظ خان کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل کتاب ”دل پر اپنا اداس ہے جاناں“۔

کالم نگار جناب آصف محمود کی کتاب ”ڈرون حملے“ اور ”مذہبی سیاست کا مستقبل“۔ پچیس تیس سال قبل زیر مطالعہ رہنے والی بعض چُنیدہ کتب، خلافت وملوکیت، پردہ، سیرت سرور عالم، محسن انسانیت پروفیسر خورشید احمد کی اسلامی نظریہ حیات، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی مرتب کردہ ”سیف الملوک“ کے علاوہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں، عصمت چغتائی، ساحر لدھیانوی کی شاعری کا نسخہ ”پرچھائیاں“، قدرت اللہ کا ”شہا ب نامہ“، بانو قدسیہ کا ناول ”راجہ گدھ“، کرشن چندر، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی مجموعے اور ساغر صدیقی کی شاعری اس کا حصہ ہیں۔

محض کتابوں کے ذکر سے ان کا حق ادا نہیں ہوتا ان میں سے ہر ایک طویل مضمون کی متقاضی ہے کرونا اور قرنطینہ نے جس تیزی سے انسانی دنیا پیچھے کی طرف دھکیلی ہے لگتا ہے اسی سرعت سے جدید ترین ڈیجیٹلائز طرز زندگی ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے قرنطینہ کی برکتوں سے کرونا سے چھٹکارا ملا تو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments