آزادی صحافت، مالکان اور حکمران


نجی چینل کی نشریات معطل، نجی چینل کو جرمانہ، چینل کے دفتر پر چھاپہ سامان تحویل میں لے لیا گیا یہ وہ خبریں ہیں جو ہمیں اکثر سننے کو ملتی رہی ہیں اور مل رہی ہیں۔

لیکن کچھ صحافیوں کے مطابق اس دورحکومت میں میڈیا پر زیادہ ہی دکھ زدہ دور گزر رہا ہے یعنی سخت قدغنوں کا دور۔ حکومت سے نالاں یہ صحافی حکومت وقت سے سخت لہجہ میں شکوہ و شکایات کرتے رہے اور حکومتی ارکان جواب شکوہ کے طور پر ان کو اعتماد میں لیتے رہے۔ معاملہ اس وقت سے زیادہ سنگینی اختیار کر چکا ہے جب سے نیب کی طرف سے ایک نجی چینل کے مالک کو غیر قانونی طریقے سے زمین حاصل کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

صحافیوں کی طرف سے احتجاج کیے جارہے ہیں ریلیاں نکالی جارہی ہیں اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے حق میں سامنے آگئی ہیں شاید آزادی صحافت پر حملہ سمجھ کر یا حکومت پر دباؤ ڈالنے کا موقع پاکر یا پھر میڈیا ہاؤسز سے جڑی مجبوریاں ان سیاستدانوں کو یہاں لے آئیں

سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا

بہرحال نیب، منیب، بیتاب اور احتساب اکھاڑے میں آچکے ہیں کس کا سانس پھولتا ہے کون چت کرتا ہے کون چت ہوتا ہے نظریں جمائے رکھیں۔

بات ہورہی تھی کہ ریاست کا چوتھا ستون یعنی میڈیا کیا واقعی اتنی پابندیوں، چھاپوں اور جرمانوں کا شکار ہے اگر ہاں تو ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ جلدی جلدی عوام کے لئے خبریں پہنچاتا ہے چاہے بعد میں اسے شرمندگی میں معذرت کیوں نہ کرنی پڑے، سب خبروں کو بریکنگ کے طور پر پیش کرتا ہے، ہر واقعہ کو سنسنی خیز بناکر پیش کرتاہے تاکہ ہماری بھی عادت پوری ہو کیونکہ ہم بھی تو اس چیز کے عادی بن چکے ہیں اور اتنا عادی کہ اگر کسی چینل پر کچھ لوگ شائستگی سے گفتگو کررہے ہوں تو یہ کہتے ہوئے ریموٹ کا بٹن دبا دیتے ہیں کہ انہیں تبصرہ نہیں آتا اور ”تو تو میں میں“ والے پروگرام پر ہی ہاتھوں کو سکون ملتا ہے۔

ذرا پیمرا سے بھی سن لیتے ہیں۔ پیمرا چینلز کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے ان کے مالکان کے سامنے حلف نامہ کے طور پر کچھ اصول و شرائط رکھتا ہے جو کہ پیمرا آرڈیننس 2002، قواعد 2009 اور ضابطہ اخلاق 2015 کی صورت میں ہیں۔ ان میں سے چند اہم نکات یہ ہیں :

»پاکستان کی عزت و سالمیت، قومی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
»غلط و گمراہ کن معلومات نہیں دی جائیں گی۔
»کسی پروگرام اور اشتہار میں فحاشی اور تشدد نہیں دکھایاجائے گا۔
»کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں ہو گی۔
»پروگرام میں اشتہارات کا وقفہ تین منٹ سے زیادہ نہ ہوگا۔
»بہتر تفریح، معلومات اور تعلیم پہنچائی جائے گی۔
یقیناً اسے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوگیا ہوگا کہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کون کررہا ہے اور اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے۔

اجمل قصاب کو اپنے ہی ملک کا دہشتگرد بنا کر ملکی عزت کے ساتھ کھلواڑ کی گئی، ثقافت کو مغربی ثقافت میں ڈھالا گیا اور مزید ابن بطوطہ کی طرح ثقافت کا سفر جاری ہے کبھی ادھر تو کبھی ادھر، مذہبی اقدار کے حال کا اندازہ رمضان کریم کے دوران گیم شوز اور مارننگ شوز سے لگایا جاسکتا ہے۔

غلط خبریں دینا اور بعد میں تردید کرنا معمول بن گیا ہے، پیمرا کے مطابق صرف جنوری 2020 میں 6 غلط خبریں مختلف چینلز سے نشر کی گئیں۔ کچھ دن پہلے تو ہمارے میڈیا کو برطانوی وزیراعظم پہلے مرا ہوا ملا پھر زندہ۔ جہاں اشتہارات کی بات ہے ہر آئے روز غیر مناسب اشتہارات دکھائے جاتے ہیں 2017 میں ایک آئسکریم برانڈ کا اشتہار اتنا بے ہودہ تھا کہ پیمرا کو اسے بند کرانا پڑا۔ اپنے ہی ملک کے سربراہوں کو (ڈمیز بناکر) گدھوں پر بٹھایا گیا، باکسر عامر خان اور اداکار محسن عباس حیدر سمیت کئی لوگوں کی ذاتی زندگی پر ریمارکس ایسے دیے گئے کہ ہمارے اینکر اینکر کم جج زیادہ لگنے لگے۔

جب میں ایک نجی چینل میں ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کے طور پرکام کررہا تھا تو ان دنوں عائشہ گلالئی تحریک انصاف کو چھوڑ چکی تھی جس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں اور اس کے درمیان سرد جنگ جاری تھی مجھے اینکر نے جو اوپر کے فلور پر چینل کے مالک کے ساتھ بیٹھا تھا ایک پیکج بنانے کا کہا کہ عائشہ گلالئی کی بہن اسکواش چیمپئن ماریہ طورکو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ لکھنا ہے کہ عائشہ گلالئی عمران خان پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے گھر پر نظر ڈالے اور اپنی بہن کو لباس کا طریقہ سکھائے میں نے انکار بھی نہ کیا اور پیکج بھی نہ بنایا مجبور ہوکر ضرور بناتا لیکن اس وقت میں مجبور نہیں تھا کیونکہ میرا دفتر میں آخری دن تھا دوسری جاب کے لئے میرے آرڈر آئے ہوئے تھے۔ چھوٹے میڈیا ورکرز ویسے بھی اینکرز کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں جبکہ مالکان اینکرز پر مہربان لاکھوں روپے تنخواہیں، بونس اور گاڑیاں۔

چھوٹے ملازمین کا ذکر ہوا تو ذرا ہم اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں کہ میڈیا مالکان جو حکومت کے ہر کام کو اینکرز کے ذریعے نکتہ چینی کا نشانہ بنواتے ہیں اپنے ملازمین کا تحفظ کس حد تک کررہے ہیں۔

ورکنگ جرنلسٹ آرڈیننس 1960 کے مطابق میڈیا مالکان ملازمین کے لئے ان شرائط پر پورا اتریں گے :
»پروویڈنٹ فنڈ ایکٹ کے تحت پروویڈنٹ فنڈ مہیا کیا جائے گا۔
»ملازمت سے فارغ کرنے سے ایک ماہ پہلے نوٹس دیا جائے گا
»اوور ٹائم کام کرنے کی اضافی رقم دی جائے گی۔
»ملازم سال میں 15 رخصت اتفاقیہ لے سکے گا۔
»ہیلتھ انشورنس دی جائے گی۔
ہمارے ہاں چھوٹے ملازمین کو اوور ٹائم کی رقم دینا تو دور کی بات 5، 5 مہینوں تک تنخواہیں نہیں دی جاتی اور اکثریت تو سالہاسال سے Unpaid Internshipپر ہے۔ ہیلتھ انشورنس تو کیاملازمین سے 12 ، 12 گھنٹے کی شفٹ لگواکر بیمار کیا جاتا ہے اور ہفتے میں ایک بھی چھٹی نہیں۔ ملازمت سے فارغ کرنے کے نوٹس کی بجائے چینل کے چینل ایک ہی حکم پر بند کرکے ملازمین کو دھکے دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے۔ اس مشکل دور میں چند دن پہلے ہی ایک چینل کو مالک کی طرف سے بند کردیا گیا۔

چھوٹے ملازمین کے حق میں نہ تو اپوزیشن آئی، نہ یہ سینئر اینکرز آئے اور نہ ہی عالمی صحافتی تنظیمیں ہاں مگر آزادی صحافت کے بینر اٹھائے مالکان کی گرفتاری کے خلاف اور چینل پر جرمانے کے خلاف یہ سب آئے۔

قانون توڑنے والے کا دفاع کرنا، مذہبی اقدار کا مذاق اڑانا، کسی کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانا، نازیبہ مواد کو نشر کرنا، ریکنگ کی دوڑ میں غلط اور گمراہ کن خبریں دینا اورپھر جرمانوں پر رونا آزادی صحافت نہیں انکاری قانون ہے۔ سینئر اینکرز قانون سے باہر نہ نکلیں ذمہ داری کا ثبوت دیں، اپنے مفادات کی بجائے چھوٹے ملازمین کا ساتھ دیں۔ کیونکہ آزادی صحافت کو حکمران کے ساتھ ساتھ چھوٹے میڈیا کارکنوں سے متعلق ویج بورڈ قوانین کے عدم اطلاق سے بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments