خالد سہیل کے تین سو محبت نامے اور فیملی آف دی ہارٹ



کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جو بیک وقت طبیب بھی ہو اور ادیب بھی، ایک کالم نگار بھی ہو اور مترجم بھی، جو ایک مسیحا بھی ہو اور شاعر بھی، جو مسافر بھی ہواور منزل بھی، جو ایک درویش بھی ہو اور جدید دور کی چالیس کتابوں کا مصنف بھی اور جو ایک ادبی و تخلیقی ادارے کا روحِ رواں بھی ہو اور اپنی ذات میں ایک ادارہ بھی؟

آئیے آج میں آپ کو ’ھم سب‘ کے فورم سے ایک ایسے ہی نابغہ روز گار شخص سے ملواؤں۔

1952 ء میں پشاور کے مضافات میں پیدا ہونے والا ایک دیہاتی بچہ سکول کا کام کرنے کے بعد روزانہ سہ پہر کو دریا کے کنارے کھیل کود کے لیے چلا جاتا ہے۔ شام کو جب تمام بچے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں تو یہ بچہ تھوڑی دیر دریا کے کنارے چلتے چلتے خود کلامی کرتا رہتا ہے۔ ایک دن ایک عجیب خیال اس کے دل میں آتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے : ”زندگی بہت قیمتی چیز ہے۔ یہ ضائع کرنے کی شے نہیں اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لیے مجھے کچھ خواب دیکھنے چاہیئں۔ “ یوں یہ سولہ سالہ ہونہار بچہ اس رات کھلی آنکھوں سے چار خواب دیکھتا ہے :

(1) مجھے ایک ڈاکٹر بننا چاہیے تاکہ میں لاچار لوگوں کے دُکھوں کو سُکھ میں بدل سکوں۔

(2) مجھے ایک بڑا لکھاری بننا چاہیے، ایسا لکھاری جس کی کتابیں قاری لائبریر ی میں نام لے کر اس کا نام لے کر طلب کریں

(3) میں دنیا بھر کی سیر کروں اور نت نئے لوگ، علاقے اور رسم و رواج دیکھوں۔

(4) میں دنیا بھر میں مختلف دیسوں کے ہم خیال باسیوں کو اپنا دوست بناؤں تا کہ ان کے دُکھ، سُکھ، خواب اور محرومیاں جان سکوں۔

کہتے ہیں وقت کے کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جن کی لپیٹ میں آئے افراد پوری زندگی ان کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکتے۔

کون کہہ سکتا تھا کہ وہ دن اس بچے کی معصوم تمناوں کی تکمیل کا دن تھا اور شاید اس کے حسین خوابوں کہ تعبیر کی قبولیت کا وقت بھی کیونکہ اس دن کے بعد اس بچے کا ہر اٹھتا قدم اس کو اس کے خوابوں کی تعبیر کی طرف لے گیا۔ اور اگلی تین چار دہایوں میں وہ نوجوان نہ صرف ایک معروف نفسیات دان بنا بلکہ ایک نامور ادیب، شاعر اور دانشور ہونے کے علاوہ چالیس کے قریب کتب کا مصنف بھی بن چکا تھا۔

اس کو دنیا کی سیر کا موقع ملا اور وہ دنیا بھر میں ہر رنگ، نسل، مذہب، زبان او ر عمر کے دس ہزار لوگوں کو اپنا قلمی اور قلبی دوست بنانے میں نہ صرف کامیاب ہو گیا بلکہ ایک بین الاقوامی فیملی آف دی ہارٹ جیسی تخلیقی و ادبی تنظیم بھی بنا ڈالی۔ بقول فیض احمد فیض:

فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے

ڈاکٹر خالد سہیل سے میری شناسائی اگست 2018 ء میں اُردو کی اہم افسانہ نگار و ادب شناس رابعہ الرّبا کے ذریعے ہوئی جو نیشنل بُک فاونڈیشن سے طباعت شدہ انسائیکلو پیڈیا ”اردو افسانہ عہد حاضر میں“ کی مصنفہ ہیں۔ اُن دنوں یہ دونوں تخلیق کار ایک دلچسپ پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے اور سلیس اُردو میں ایک دوسرے کو لکھے گئے ادبی و تخلیقی مکتوبات پر مشتمل کتاب ”درویشوں کا ڈیرہ“ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھی۔ میں اُن دنوں اپنی شارٹ سٹوری بُک :

THE INCREDIBLE PAKISTANI SHORT STORIES
پر کام کر رہا تھا اور اسی سلسلے میں میری رابعہ سے دوستی ہو چکی تھی۔ دونوں مصنفین کی خواہش تھی کہ میں ”درویشوں کا ڈیرہ“ کا انگریزی میں ترجمہ کروں اور میں نے اپنا پراجیکٹ مکمل ہونے تک وقت مانگ رکھا تھا۔ چنانچہ نومبر 2018 ء میں، میں نے اپنی کتاب مکمل کر کہ جب ”درویشوں کا ڈیرہ“ دیکھی تو ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہو گیا۔ کتاب میں تین باتیں بہت اہم ہیں : اردو ادب کی ایک خوابیدہ صنف کی حیاتِ نو، دو بالکل مختلف نظریہِ حیات رکھنے والے افراد (یاد رہے کہ کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر سہیل ایک سیکولر انسان دوست نظریے کے حامل ہیں جب کہ لاہور کی رہنے والی رابعہ ایک مذہبی و رُوحانی طرزِفکر رکھتی ہیں ) کی دوستی اور موضوعات کا چناؤ : کتاب میں جن موضوعات کو ادبی پیرائے میں رہتے ہوئے زیرِبحث لایا گیا ہے ان میں چند کا ذکر بے محل نہ ہوگا : روحانیات، مشرقی و مغربی مرد اور عورت کی نفسیات میں فرق، مرد عورت کی دوستی، جنس، محبت، رومانس، شادی، ادب، شاعری اور آرٹس شامل ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ تحریک ملی کہ اگر مکتوبی ادب LETTER FICTION کے احیا ء کا آغاز اگر ہم تینوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہے تو میری اس کتاب کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی عرق ریزی رایئگاں نہیں جائے گی۔

پانچ ماہ بعد اپریل 2019 ء میں جب کتاب ترجمہ ہوگئی تو میں نے اس کا نام، باہمی مشورے سے DERVISHES INN رکھا۔ ہماری خوش قسمتی کہ ”درویشوں کا ڈیرہ“ کی طرح اس کے انگریزی ترجمے : DERVISHES INNکو بھی مشرق و مغرب میں اردو اور انگریزی قارئین کی یکساں اور اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ گزشتہ سال کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں دونوں کتب کی ایک ہی خوبصورت تقریبِ پذیرائی منعقد ہوئی جس میں راقم الحروف کو خصوصی دعوت پر شامل ہونے کا موقع بھی ملا۔

اوپر بیان کی گئی رُوداد کا سب سے حوصلہ افزا ء پہلو یہ ہے کہ ادب دوست احباب کا ڈاکٹر سہیل کے ساتھ مکتوبی ادب کا سلسلہ نہ صرف رُکا نہیں بلکہ بدن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت تک دنیا بھر سے تیس کے قریب خواتین و حضرات ڈاکٹر سہیل کے ساتھ تواتر سے مکتوب نویسی میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں دو مزید کتب بھی شائع ہو چکی ہیں :

1۔ LITERARY LOVE LETTERS by Dr Khalid Sohail & Naeem Ashraf
2۔ TWO CANDLES OF PEACE by Dr Khalid Sohail & Dr Kamran Ahmed

مندرجہ بالا کتب بین الاقوامی کتب فروش ادارے amazon.com پر دستیاب ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر سہیل کے ہم سب پر طباعت شدہ منتخب کالموں پر مشتمل ”آدرش“ نامی کتاب سانجھ پبلیکیشن لاہور میں طباعت کے مرحلے میں ہے۔ ان کے بقول خطوط کے سلسلے کی پانچویں کتاب جس میں چوبیس لوگوں کی مختلف موضوعات پر خط و کتابت شامل ہے بھی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ جب بھی ڈاکٹر سہیل سے ان کی کتابوں بارے بات ہوتی ہے تو وہ ایک جملہ دہراتے ہیں : ”میری کتابیں انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں۔ “

ڈاکٹر خالد سہیل ان چند خوش قسمت انسانوں میں سے ہیں جن کو قدرت ان کے خوابوں کی تعبیر عطا کرتی ہے۔ ان کی جن کتب سے میں مستفید ہوا ہوں ان میں : روحانیات کی نفسیات، دانائی کی تلاش میں، درویشوں کا ڈیرہ، THE SEEKER، DEEP LOVE، MYSTERIES OF MYSTICISM، LOVE، SEX AND MARRIAGE AND TWO CANDLES OF PEACE شامل ہیں۔

میں ڈاکٹر خالد سہیل کو ’ھم سب‘ کے لیے تین سو کالم مکمل کرنے پر دلی مبارک باد اور ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں اور ان کی فیملی آف دی ہارٹ کے لیے نیک تمنائیں رکھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments