لاک ڈاؤن اعلامیہ: حکومت کا نہلا اور علما کا دہلا


گزشتہ دنوں عجیب فساد مچا ہوا تھا۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کا کہا تو علما کی ایک بڑی تعداد نے کراچی پریس کلب میں اس کے خلاف بیان دے دیا۔ تحریری بیان میں تو ”مطالبہ“ کیا گیا تھا کہ مساجد کا لاک ڈاؤن نا کیا جائے مگر تقریری بیان میں اعلان کر دیا گیا کہ ہم حکومت کو خاطر میں نا لاتے ہوئے لاک ڈاؤن ختم کر رہے ہیں، مساجد میں باجماعت نماز بھی ہو گی اور تراویح بھی۔

اس کے بعد صدر مملکت کے ساتھ علما کے مذاکرات ہوئے جس میں کوئی بیس نکات طے ہوئے جو حکومت نے جاری کیے۔ ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔

6) 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔
10 ) مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے۔ ایک نقشہ منسلک ہے جو اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہے۔
14 ) لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں اورکسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔

اس کے جواب میں مفتی منیب نے مساجد کی انتظامیہ اور نمازی حضرات کو ”اہم ہدایات“ جاری کیں۔ اس کے چیدہ نکات بھی دیکھ لیتے ہیں۔

( 1 ) ایک صف میں دو نمازیوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
( 2 ) دوصفوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
( 4 ) ترجیحی طور پر مسجد میں ماسک پہن کر آئیں۔
( 9 ) مسجد سے ہجوم کی صورت میں نہ نکلیں، لائن بناکر ایک ایک کر کے نکلیں اور دو آدمیوں کے درمیان تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
( 10 ) عمر رسیدہ حضرات وبا کے پورے زمانے میں گھروں پر نماز پڑھیں، وہ معذور ہیں، اللہ تعالیٰ سے کامل اجر کی توقع رکھیں۔

نوٹ کریں کہ نمازیوں کے درمیان چھے فٹ کے فاصلے کو آمنے سامنے تو چھے فٹ ہی رکھا گیا ہے مگر دائیں بائیں تین تین فٹ کیا گیا ہے۔ مسجد سے نکلتے وقت بھی اسی تین فٹ کا ذکر ہے۔ علما کے اعلامیے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کی رائے میں کرونا سیدھی مار کرتا ہے، دائیں بائیں نہیں جا سکتا۔ اس لیے آگے تو چھے فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے مگر دائیں بائیں تین فٹ کا۔ فاصلے کے بارے میں طبی نقطہ نظر پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ حکومت نے کہا ہے کہ لازمی طور پر مسجد میں ماسک پہن کر آئیں۔ علما فرماتے ہیں کہ جی کرتا ہے تو پہن آئیں نہیں تو رہنے دیں، ترجیح کا تعین آپ خود کریں۔

حکومت کہتی ہے کہ 50 سے زیادہ عمر کے لوگ مسجد مت آئیں۔ علما نے 50 سال کی حکومتی حد کو ”عمر رسیدہ“ کے مبہم لفظ سے بدل دیا گیا ہے۔ عمر رسیدہ کا تعین کون کرے گا؟ کیا 50 سے 60 برس کا شخص عمر رسیدہ ہوتا ہے؟ اسے تو حکومت بھی ریٹائر نہیں کرتی اور جوان مانتی ہے۔ یا پھر سو برس کا؟

حکومت نے غالباً 50 برس کی حد لگاتے ہوئے یہ چال چلی تھی کہ جتنے علما مذاکرات کر رہے ہیں، ان کی مسجد میں آمد پر پابندی لگا دے۔ بڑے علما کی فہرست بنا کر دیکھ لیں کہ کوئی پچاس برس سے کم کا ہے یا نہیں؟ تصویر موجود ہے۔

ہو سکتا ہے کہ حکومتی اعلامیے میں یہ سوچ کر پچاس برس کی حد پر اعتراض نا کیا ہو کہ چلو ہم بزرگ لوگ مسجد نہیں جاتے اور کرونا کے خطرے سے بچ جاتے ہیں، وہاں جانے والے دیگر لوگوں کو اللہ نے چاہا تو وہ بچا لے گا۔ ایک مدبر کہہ چکا ہے کہ خود مرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی مگر کسی دوسرے کو مرنے پر راضی کرنا مشکل کام ہوتا ہے، اور ایک سپاہی اور جرنیل میں صلاحیت کا یہی فرق ہوتا ہے۔

مگر بعد میں علما نے اپنا الگ اعلامیہ جاری کیا ہے تو اس میں یہ سوچ کر پچاس سال کی حد کی بجائے عمر رسیدہ کا لفظ ڈال دیا ہو گا کہ کیا پتہ کہیں جانے میں کسی شہری کا کوئی فائدہ ہو جائے۔ شرعی حیلہ تو موجود رہے گا کہ اسی نوے برس کا ہو کر بھی جوان جہان ہوں اور عمر رسیدہ نہیں ہوا اس لیے یہ شرط مجھ پر لاگو نہیں ہوتی۔

اچھا فاصلے کی بات ہو رہی تھی۔ تین فٹ کی بھی سن لیں۔ عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ کرونا سانس کے ذریعے ایک میٹر تک مار کرتا ہے۔ یعنی سوا تین فٹ سے کچھ اوپر۔ اس فٹ اور میٹر کے چکر کا اندازہ لگانے کے لیے آپ یہ سوچیں کہ اگر بزاز آپ کو کہے کہ کپڑے کا بھاؤ پانچ سو روپے میٹر ہے مگر ماپتے وقت میٹر کی بجائے پرانا گز نکال لے تو آپ کے جذبات اور بزاز کا سر کتنے مجروح ہوں گے؟ کرونا اسی طرح میٹر کے گز سے زیادہ ہونے کے سبب تین فٹ دور کھڑے آدمی کو باآسانی نشانہ بنا لے گا۔

امریکی ادارہ برائے انسداد امراض سوشل ڈسٹینسنگ یعنی جسمانی فاصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میاں تین فٹ مناسب نہیں ہے، کرونا سے بچنا ہے تو چھے فٹ کا فاصلہ رکھو، گروہ مت بناؤ اور پرہجوم جگہوں پر مت جاؤ۔

ایسے میں جنگلی حیات کی فلمیں بنانے والے نیشنل جیوگرافک والوں نے کرونا کو بھی جنگلی حیات قرار دیا اور اپنا ہائی سپیڈ کیمرا لے کر میدان میں اتر آئے۔ مشہور امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کی ایک بی بی لیڈیا بوروئبا کو انہوں نے دو ہزار فریم فی سیکنڈ کی رفتار سے فلم بنانے کا کیمرہ تھما دیا اور کہا کہ کسی چھینک مارتے جوان کی اچھی سی فلم تو بنا کر دکھاؤ۔ یاد رہے کہ ٹی وی اور فلم وغیرہ پر پچیس فریم فی سیکنڈ کی رفتار مناسب سمجھی جاتی ہے تو دو ہزار فریم تو سپر سلو موشن ہے۔

انکشاف ہوا کہ چھینک مارنے سے کسی شخص کے منہ سے نزلے اور تھوک کا بادل کوئی ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلتا ہے اور تئیس سے ستائیس فٹ دور تک جا سکتا ہے۔ اس کے بعد بادل میں موجود جراثیمی ڈراپ لیٹ اپنے سائز کے حساب سے کئی منٹ تک فضا میں معلق رہ سکتے ہیں۔ یعنی نیشنل جیوگرافک کی رائے میں محفوظ فاصلہ تین یا چھے فٹ نہیں اٹھائیس فٹ قرار پایا ہے۔

اسی مضمون میں نیشنل جیوگرافک والوں نے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے ایک مضمون کا حوالہ دے دیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلند آواز میں بولے تو اس کے منہ سے خارج ہونے والے ڈراپ لیٹ تین فٹ تک تو ویسے ہی مار کر لیتے ہیں۔

اب خود سوچ لیں کہ مسجد میں آپ کا سامنا کسی بلند آواز میں بولنے والے سے ہو گیا تو آپ اس سے تین فٹ دور رہ کر بچ جائیں گے۔ مسجد میں بظاہر کسی صحت مند شخص کو بھی اچانک کھانسی آ گئی تو چھے فٹ بھی کم پڑیں گے۔ خدانخواستہ کسی نمازی کو الرجی یا ناک میں خارش کی وجہ سے چھینک آ گئی تو 27 فٹ دور تک صفوں کی صفیں الٹ جائیں گی۔

مجھے مولانا فضل الرحمان بلاوجہ تو پسند نہیں ہیں۔ علما کے اعلامیے سے انہوں نے ہرگز بھی اختلاف نہیں کیا بس اپنا بتا دیا ہے کہ وہ نمازیں اور تراویح مسجد کی بجائے گھر میں ہی پڑھیں گے۔ حضرت پچاس برس سے زیادہ کے تو ہیں مگر عمر رسیدہ ہرگز نہیں ہیں اور ان کا دماغ خوب کام کرتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments