شربت گلہ کے لئے آواز اٹھانا کیوں ضروری تھا؟


\"lubna-mirza\"شربت گلہ کو دیکھیں۔ کتنی پیاری بچی تھی وہ اور اس کے جیسی اور کتنی پیاری بچیاں‌ جن کو تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے بڑھاپے میں‌ قدم رکھنے ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہاں ہیرے مٹی میں‌ رلتے رہیں ‌گے۔

یہ بات درست ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ہم انسانوں‌ کے تو اندھا ہوجانے کا کوئی جواز نہیں‌ بنتا۔ دنیا اور زندگی کالے سفید نہیں‌ ہوتے ان کے بیچ میں‌ کافی سارے سرمئی کے شیڈ ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی اور تجربے سے سیکھتا ہے چاہے وہ کسی بھی فیلڈ میں‌ ہو۔ سارے جواب کتاب کھول کر نہیں‌ دئیے جاسکتے ہیں‌ اکثر \”فیلڈ ڈسیشن\” کرنے ہوتے ہیں جو کہ حالات پر اور فیصلوں‌ کے نتائج پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر قانون کی ایک وجہ ہوتی ہے، اس کا وقت ہوتا ہے اور اس کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ لکیر کے فقیر بن کر تھیوری میں‌ سو فیصد ضرور لے سکتے ہیں‌ لیکن اس کی پریکٹیکل ویلیو صفر ہوتی ہے۔

ٹیچرز کی آخر کیا ضرورت ہے؟ جب کتابیں‌ دنیا میں‌ آج کل ہر شہر، ہر بازار اور ہر کونے میں‌ آسانی سے دستیاب ہیں‌ پھر استاد کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ استاد کا کام سوچنا سکھانا ہے اور اپنے تجربے اور مشاہدے سے طالب علم کی رہنمائی کرنا ہے۔ دنیا کی ساری کتابیں‌ مل کر بھی بغیر تجربے اور مشاہدے کے کوئی فائدہ نہیں‌ دے سکتی ہیں۔ یہ وقت کے ساتھ سمجھ میں‌ آتا ہے کہ لکھے ہوئے الفاظ زندہ ہیں جن میں‌ ہمیں‌ خود سمجھ کی روح‌ پھونکنی ہوتی ہے اور نئے جامے پہنانے ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی زندگی بھی پرانی دنیا پر نظر ثانی کا موقع ہے۔ بہتر ہے کہ صرف دوسرے لوگوں‌ کا سکھایا ہوا ہی آگے نہ بڑھایا جائے ‌ بلکہ اپنی زندگی اور تجربے سے حاصل کی گئی معلومات اور سمجھ کو لکھ کر حال اور مستقبل کے اسٹوڈنٹس کے لئیے ریکارڈ کیا جائے۔

شربت گلہ کی تصویر دیکھ کر خاموش بھی رہا جا سکتا ہے اور پاس سے گذر سکتے ہیں۔ وہ ہماری کیا لگتی ہے؟ لیکن خاموش رہ کر بھی ہم ایک جرم کر رہے ہوتے ہیں۔ شربت گلہ کی کہانی دنیا کے انسانوں کی آنکھوں‌ کے سامنے آکر سب کی ذمہ داری بن گئی ہے۔

کچھ سال گذرے ایک کالے امریکی صاحب کو میرے پاس بھیجا گیا کیونکہ ان کو تھائرائڈ زیادہ ہوجانے کی بیماری تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ کہ تھائرائڈ ہارمون کا زیادگی میں‌ ہونا ایک خطرناک بیماری ہے جس سے مریض‌ کی جان تک جا سکتی ہے۔ جب فیملی ہسٹری کی باری آئی تو انہوں‌ نے کہا کہ میرے بھائی کا بھی گلا ایسے ہی بڑا ہے۔ اچھا تو آپ اپنے بھائی سے کہیں‌ کہ وہ بھی مجھے دکھانے آئے کیونکہ یہ ایک خطرناک مرض ہے۔ لیکن وہ تو گھر میں‌ رہتا ہے، ہمارے والد کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کے پاس نہ نوکری ہے اور نہ ہی ہیلتھ انشورنس ۔

ہسپتال کی یہ پالیسی ہے کہ یا تو انشورنس بل ادا کرے گی یا پھر مریض کو اپنے علاج کے لئیے خود پیسے دینے ہوں‌ گے۔ اور جگہیں‌بھی ہیں‌جہاں‌فری علاج ممکن ہے \"sharbat-gula\"لیکن وہ زیادہ تر فیملی ڈاکٹر ہیں۔ اس شہر میں‌ تھائرائڈ کی بیماری کے صرف دو ماہر ہیں۔ ایک میں‌ اور ایک میرے کولیگ۔ یہاں‌ایک اخلاقی سوال کھڑا ہوگیا۔ اگر مجھے اس مریض‌کے بارے میں ‌معلوم نہ ہوتا تو اور بات تھی۔ میری معلومات میں‌ آنے کے بعد اب یہ میرا مسئلہ بن گیا۔ اگر یہ مریض مر جائے‌ تو اس کی ذمہ داری میرے کاندھوں‌ پر ہمیشہ لدی رہے گی۔ \”کوئی بات نہیں‌ آپ پھر بھی ان کو بھیج دیں۔\” ایڈمنسٹریشن کے اصول توڑ کر بغیر فیس لئیے اس آدمی کا علاج کیا اور وہ آج بھی زندہ ہے۔ اصولوں‌ کو انسانوں‌ کی مدد کے لئیے توڑنا ہوتا ہے کیونکہ ان کا مقصد انسانوں‌ کی مدد کرنا ہے۔ جن قوانین سے انسانوں‌ کو نقصان یا تکلیف پہنچے یا جن کی موجودگی سے لوگوں‌کی زندگی خراب ہو، ان کا توڑنا ہی مناسب ہوتا ہے۔

جرم دو طرح‌ کے ہوتے ہیں۔ \”سن آف کمیشن\” اور \”سن آف اومیشن\”۔ قتل کرنا، چوری کرنا سن آف کمیشن ہیں‌ اور ایک ایسی جگہ جہاں‌ ہمیں‌ کچھ کرنا چاہئیے اور ہم نہیں‌ کرتے تو اس کو سن آف اومیشن کہتے ہیں۔ دوسری طرح‌ کا گناہ ذرا معصوم لگتا ہے لیکن وہ معصوم نہیں‌ ہوتا اور انسانیت کو گہرا نقصان دیتا ہے۔ ان مشکل میں‌ پھنسے انسانوں کی جگہ ہم بھی ہوسکتے تھے۔ شربت گلہ کو اور اس کے جیسی دیگر خواتین کو آزاد کردیا جانا چاہئیے۔ جن خواتین نے نہ قتل کیا نہ چوری تو ان کو جیل میں‌ رکھنے کا کیا جواز ہے؟ ان کے بچے کوئی ان کی طرح‌ نہیں‌ پال سکتا۔ بچوں‌ کی اچھی تربیت ضروری ہے کیونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔

ایک بوڑھے مریض ‌ہیں‌ جو تمام زندگی پولیس آفیسر رہے۔ انہوں‌ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ جس شہرمیں‌ ان کی نوکری تھی اس کے قوانین میں‌ شامل تھا کہ اتنی زمین پر ایک سے زیادہ گھر بنانا منع ہے۔ ایک فیملی کے والدین جب بوڑھے ہو گئے تو انہوں‌ نے اپنے صحن میں‌ ٹریلر ہاؤس رکھ لیا جن میں‌ ان کے ضعیف والدین رہتے تھے۔ وہ اتنا قریب تھا کہ ضرورت پڑنے پر فوراً پہنچا جاسکتا تھا اور ان کو پرائویسی بھی میسر تھی۔ ان پولیس آفیسر کی جاب تھی کہ غیر قانونی مکانات کو ہٹائیں لیکن وہ جب تک وہاں‌ کام کرتے رہے انہوں‌ نے کبھی ان لوگوں‌ کو جاکر پریشان نہیں‌ کیا اور نہ ہی ان کی شکایت لگائی۔

ایک جواب ہر صورت حال پر لاگو نہیں‌ کیا جاسکتا اور جن جگہوں‌ پر جواب موجود نہیں‌ ہوتے تو خود جواب بنانے پڑتے ہیں، اس کے لئیے انسانی ہمدردی کے جذبے کی اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ طاقت معلومات سے آتی ہے۔ خطے کی تاریخ کا ہمدردی سے جائزہ لینا ہوگا اور جو انسانی المیہ پیدا ہوا ہے اس کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

ایک دفعہ ایک ای این ٹی کولیگ کا فون آیا، اس نے کہا کہ اس چھوٹے شہر میں‌ کوئی اینڈوکرنالوجسٹ نہیں‌ ہے اور ایک مریض کو ہم ہسپتال سے گھر نہیں‌ بھیج پارہے ہیں‌ کیونکہ اس کا کیشیم بار بار اتنا کم ہوجاتا ہے کہ ڈرپ چڑھانی پڑ رہی ہے۔ وہ تین بار گھر سے واپس ہسپتال آ چکا ہے۔ اس مریض‌ کا تھائرائڈ نکال دیا گیا تھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی پیراتھائرائڈ غدود بھی ساتھ میں‌ نکل گئے تھے جو ہمارے جسم میں‌ کیشیم کو نارمل رکھتے ہیں۔ اس کو ہسپتال میں دس دن ہوچکے تھے۔ اس کا چارٹ پڑھا اور خون کے ٹیسٹ بھی دیکھے۔ اصول سے چلتے رہنے سے مسئلہ حل نہیں‌ ہونا تھا۔ اس وقت اس بیماری کی دوا \”نیٹ پیرا\” مارکیٹ میں‌ نئی نکلی تھی اور دستیاب ہونا شروع ہو چکی تھی لیکن اس کو مریض‌کی انشورنس سے اپروو کروا کر فارمیسی سے منگانے میں‌ کم از کم دو تین ہفتے لگ جانے تھے۔ فورٹیو بھی یہی کیمیکل ہے جو کہ اوسٹیوپوروسس کی دوائی ہے جس کے سیمپل فرج میں‌ رکھے ہوئے تھے ۔ یہ انسانی پیراتھائرائڈ ہارمون کی طرح‌ بنایا ہوا پیراتھائرائڈ ہارمون ہے۔ مریض کو بتایا کہ اگر آپ اس کا ایک ٹیکا روز لگائیں‌ گے تو جلد گھر جا سکیں‌ گے۔ معلوم رہے کہ یہ دوا ہڈیوں‌ کے بھربھرے ہونے کی بیماری کے لئیے مخصوص ہے اور پیراتھائیرائڈ کی کمی کے لئیے نہیں‌۔ ایف ڈی اے لیبل صرف وہی بتاتا ہے جس کے لئیے اس دوا کا لائنسنس حاصل کیا گیا تھا۔ اس لیبل کو اس بات سے غرض نہیں‌ کہ یہ دوا اور کیا کیا کر سکتی ہے۔ یہاں‌ ایک فیلڈ ڈیسیشن بنانا ضروری تھا۔ دو دن میں‌ وہ صاحب گھر چلے گئے اور ان کو یہ پیپر لکھے جانے تک دوبارہ ہسپتال آج تک نہیں‌ جانا پڑا۔

سب لوگ جس جس فیلڈ میں‌ کام کررہے ہیں‌ ان کو اسی فیلڈ میں‌ انسانوں‌ کی بہتری کے لئیے مناسب فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمدرد قانون دانوں‌ کی اشد ضرورت ہے جو ان لوگوں‌ کی آواز بن سکیں‌ جن کی اپنی کوئی آواز نہیں۔ شربت گلہ کی آواز کون بنے گا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).