کیا جو بائڈن نے حبیب جالب کو پڑھ رکھا ہے؟


آپ نے کئی ٹرک ہوٹلوں میں ایک کم عمر کے لڑکے کو کام کرتے دیکھا ہوگا۔ ہر کوئی آواز دے رہا ہوتا ہے۔ ” چھوٹے ذرا چار نان لے کر آنا” “یہ پانی کیوں نہیں لایا۔ چھوٹے پانی پکڑنا۔ ” ” میز پر کپڑا تو لگا دو ” یہ بیچارا ” چھوٹا” نہ ریستوران کا مالک ہے۔ نہ کھانا پکانے ولا ہے۔ نہ کوئی گاہک ہے۔ یہ بیچارا تو صرف ایک عدد ” چھوٹا” ہے۔ کبھی کوئی اس چھوٹے سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ تمہاری مرضی کیا ہے؟ بھلا ” چھوٹے ” کی بھی کوئی مرضی ہوتی ہے؟ بد قسمتی سے بعض ممالک عالمی منظر پر “چھوٹے” کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

 یہ پس منظر بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ آہستہ آہستہ امریکہ کے انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے۔ نومبر میں سابق نائب صدر جو بائڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیداوار کے طور پر صدر ٹرمپ کا مقابلہ کریں گے۔ ابھی انتخابات میں چھ ماہ سے زائد عرصہ پڑا ہے اور اس دوران حالات کئی مرتبہ بدلیں گے۔ لیکن فی الحال جائزے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جو بائڈن کا پلہ کچھ بھاری ہے۔

 دیکھتے ہیں کہ جو بائڈن صاحب نےاس مہم کے دوران پاکستان کے بارے میں کیا نیک ارادے ظاہر کئے ہیں۔ ستمبر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کے درمیان کے درمیان ہونے والی بحث کے دوران جو بائڈن صاحب نے کہا تھا کہ افغانستان سے امریکہ کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر زور دے کر پاکستان میں اپنے لئے اڈے حاصل کرے۔ اور یہاں سے افغانستان میں موجود ممکنہ دہشت گروں کے خلاف کارروائی کرے۔ بائڈن صاحب نے اس بات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ پاکستان یہ سہولت مہیا کرنے پر تیار ہوگا کہ نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک یہی کافی تھا کہ ” صاحب ” کا اصرار ہے اور “چھوٹے “کا کام ہے کہ وہ چپ چاپ حکم مان لے۔ وہ کبھی ایسا اعلان اپنے اتحادی بھارت کے متعلق نہیں کریں گے۔

ان خدشات پر یہ سوال اُٹھایا جائے گا کہ ابھی تو جو بائڈن صدر بھی نہیں بنے اور یہ بحث شروع ہو گئی؟چنانچہ یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ اسی طرح 2007 کی صدارتی مہم کے دوران ایک امریکی سینیٹر باراک اوبامہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صدر بن کرپاکستان کے اندر القاعدہ کے ٹھکانوں پر حملے کریں گے، خواہ پاکستان کی حکومت اس کی اجازت دے یا نہ دے۔ اسی طرح انہوں نے اس انتخابی مہم میں یہ اعلان بھی کیا کہ اگر بحیثیث صدر انہیں یہ اطلاع ملی کہ کوئی اہم دہشت گرد پاکستان میں ہے تو وہ پاکستان میں اس دہشت گردکے خلاف کارروائی کریں گے۔ اس وقت باراک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں ہیلری کلنٹن سے بہت پیچھے تھے۔ اس وقت پاکستان کی حکومت اس بات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی کہ ان کے بیانات کا نوٹس لے۔ پاکستان کے میڈیا نے بھی اس پر کوئی شور بلند نہیں کیا۔ لیکن اسی طرح کے بیانات دے دے کر باراک اوبامہ نے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی اور ایک دن وہ امریکہ کے صدر کا حلف اٹھا رہے تھے۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں میں اضافہ ہو گیا۔ امریکی جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے پاکستان کے کئی فوجی جوانوں کو شہید بھی کیا۔ اور 2 مئی 2011کو امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اسامہ بن لادن کو قتل کیا اور لاش لے کر چلتے بنے۔ اور ہم انہیں واپسی پر روک بھی نہیں سکے۔ ان ارادوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کا وقت وہی تھا جب انتخابی مہم کے دوران باراک اوبامہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے امریکی شہریوں سے یہ وعدے کر رہے تھے۔

اسی طرح بائڈن کےان ارادوں کا سد باب ابھی ہونا چاہیے۔ پاکستان نے جب بھی امریکہ کو کسی قسم کے اڈے بنانے کی سہولت مہیا کی ہے اس کا نتیجہ پاکستان کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔ پاکستان کی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ پانے کا موقع نہ دے۔ لیکن افغانستان میں کیا ہوتا ہے یا امریکہ اپنی افواج کو کس طرح افغانستان سے نکالتا ہے یہ پاکستان کی سر درد نہیں ہے۔ مناسب ہوتا کہ پاکستان کی حکومت ابھی سے یہ وضاحت جاری کر دیتی کہ ہم پاکستان کے اندر کسی طاقت کو اپنے اڈے بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جو بائڈن صاحب نے امریکہ کے شہریوں کو جو سبز باغ دکھانے ہیں وہ ضرور دکھائیں لیکن اس انتخابی کھلواڑ میں پاکستان کو بطور میدان کے استعمال نہ کریں۔

جو بائڈن آٹھ سال صدر باراک اوبامہ کے دور میں نائب صدر رہے ہیں۔ اور اس وقت افغانستان میں امریکی جنگ عروج پر تھی۔ جب 2009 میں افغانستان میں مقرر امریکی کمانڈر جنرل میک کرسٹل نے یہ مطالبہ کیا کہ امریکہ مزید افواج افغانستان میں بھجوائے تو جو بائڈن صاحب نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ ان کا نظریہ تھا کہ اس کی بجائے امریکہ کو پاکستان میں طالبان اورالقاعدہ کے ٹھکانوں پر میزائلوں اور سپیشل فورسز کے ذریعہ بھرپورحملے کرنے چاہییں۔ ظاہر ہے کہ یہ سوچ پاکستان کے مفادات اور خود مختاری کے لئے زہر کی حیثیث رکھتی ہے۔

اسی طرح انہوں نے سی این این کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے سب سے زیادہ پریشانی افغانستان کی نہیں ہے۔ ایران کی نہیں ہے ، عراق کی نہیں ہے۔ بلکہ مجھے سب سے زیادہ پریشانی پاکستان کی وجہ سے ہے۔ ان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور وہ ان کی نقل و حمل کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اور پاکستان میں جمہوریت پوری طرح فعال نہیں ہے۔

ان بیانات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگر جو بائڈن صدر منتخب ہو گئے اور انہوں نے کسی طرح امریکہ کے لئے پاکستان میں اڈے بھی حاصل کر لئے تو یہ اڈے صرف افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔ بلکہ انہیں پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اور یہ اڈے پاکستان کی خود مختاری کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔

اور ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب پاکستان میں امریکہ کی فوجی تنصیبات بڑھی ہیں تو اس کے ساتھ پاکستان کے اندر ونی معاملات میں ان کی مداخلت بھی بڑھی ہے۔ انہوں نے ملک کے اندر اپنا جال بچھایا ہے۔ اور پاکستان کے لئے یہ ہمیشہ تباہ کن ہی ثابت ہوا ہے۔ اور ماضی میں ان کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے مختلف طبقوں کے درمیان وسیع خلیج پیدا ہوئی تھی۔

کورونا کی وجہ سے پاکستان کو جلد مالی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اس حالت میں مالی وسائل کے لئے براہ راست امریکہ یا امریکہ کے اثر میں کام کرنے والے مالی اداروں کے دروازے پر جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اگر جو بائڈن صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس ‘ بخشیش ‘کے عوض پاکستان میں انہیں اڈے مہیا کرنے کی ‘معصوم ‘ سی فرمائش بھی کی جائے۔ پاکستان کو ابھی سے واضح کر دینا چاہیے کہ ہم کسی قیمت پر یہ اڈے مہیا نہیں کریں گے۔ تاکہ جو بائڈن ان اڈوں کا نام لے کر اپنی انتخابی مہم کو مضبوط بنانے کی کوشش نہ کریں۔ اور ابھی سے واضح ہوجائے کہ اب ان کی آواز کے جواب میں ‘جی صاحب’ کی آواز نہیں آئے گی۔ ورنہ مجھے شبہ ہے کہ بائڈن صاحب نے جالب کی یہ نظم پڑھ رکھی ہے

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں

جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی

ہر امید کی کرن

ظلمتوں میں کھو گئی

یہ خبر درست ہے

ان کی موت ہو گئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments