میری بیوی پھر سے جہنمی کیسے ٹھہری؟


گھرمیں ہونے والی دعوتوں میں اور عید بقرعید وغیرہ کے موقعوں پر وہ میری بھابھیوں اور رشتہ داروں کے سامنے اپنے احساسات کا ایمانداری سے اظہار کر دیتی جسے عام طورپر پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ میں نے بھی یہ محسوس کرلیا تھا کہ خاندان کی عورتوں میں لز کی اسلام سے وابستگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں ایسا کیوں ہوا تھا اس کے سوالات بہت بجا تھے سعودی عرب کے بارے میں۔ مسلمان ملکوں سے آنے والے غیر انسانی واقعات اوران کو چھپانے اور ان کے بارے میں بات نہ کرنے کے بارے میں، ہمارے ہی جاننے والوں میں سے دو لوگوں نے امریکا میں دوسری شادی کرلی تھی اس کا خیال تھا کہ یہ امریکا کے قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی مخالفت مسلمانوں کو کرنی چاہیے۔

اس قسم کے سوالات کرنے کی بنا پر وہ مسلمان گھرانوں اور مسجد میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھی جانے لگی تھی۔ وہ تو ایک آزاد ملک میں آزاد پیدا ہوئی تھی جس کے والدین نے اسے محنت کرکے اعلیٰ تعلیم دلائی تھی۔ وہ چرچ جانے والی ایک باکردار عیسائی رہی تھی جسے بچپن سے سوالات کرنے کی عادت اورآزادی تھی۔ وہ امریکا کے مسلمان سماج میں گھٹن محسوس کرتی تھی تو اس کا سوال کرنا بجا تھا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ اس کے سوالوں کا جواب نہ میرے پاس تھا اور نہ ہی ہمارے مولویوں کے پاس تھا۔ یہ کہہ کر خاموش کردینا تو آسان تھا کہ بس یہ اعتقاد کا مسئلہ ہے اسے اسی طرح سے ماننا ہوگا۔

ایک دن اس کی یہ بات سب کو بہت بری لگی تھی جب اس نے سعودی عرب میں مجمع کے سامنے ایک کے بعد ایک گردن زدنی کے کئی واقعات کو یوٹیوب پر یہ دیکھنا شروع کیا اورپھر دیکھ نہیں سکی تھی۔ بعد میں اس نے انصاف کے اس طریقے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح سے قتل کرنا انسانیت کے منافی ہے۔ اسلام کے عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اورآج کی دنیا میں بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ایک ابتدائی بحث کے بعد اس دن لز کو اسلام کی راہ سے بھٹکنے والی کہہ دیا گیا تھا وہ تو نہیں سمجھی تھی مگر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے گھر والے کیا سوچ رہے ہیں۔

پھر ایک دن ایک عجیب بات ہوئی ہم دونوں کو ہی اپنے دفتر کے کام سے کبھی کبھار امریکا کے مختلف شہروں میں جانا پڑتا تھا، اس دفعہ اسے چار دن کے لیے جانا پڑا۔ پہلے وہ ڈیٹرائٹ گئی تھی، پھر ایک دن ڈیلاس میں گزارا تھا اوردو دن کے لیے واشنگٹن رہ کرواپس آئی تھی۔ شام کو میں عمر کے ساتھ اسے ائرپورٹ لینے گیا تھا۔ وہ عمر کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اسے بار بار پیار کررہی تھی اورمیں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی اتر رہے ہیں۔ میں اسے عمر کے لیے پیار کے آنسو ہی سمجھا تھا۔ مایں پھر مائیں ہوتی ہیں۔ مگرگھر پہنچ کر عمر کو سلا کر اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں نے گزشتہ دنوں کی خبریں دیکھیں یا سنی ہیں جس کا مجھے بالکل بھی وقت نہیں ملا تھا مگر وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں سب کچھ دیکھ رہی تھی۔

اس نے بڑی اداسی کے ساتھ بتایا تھا کہ کس طرح سعودی حکومت کی مرضی سے عدنان خاشقجی نام کے صحافی کو ترکی میں سعودی قونصلیٹ میں بدترین تشدد کے بعد قتل کیا گیا اورشاید لاش کو تیزاب میں پگھلادیا گیا تھا۔ بے چاری لز بہت پریشان رنجیدہ اوراداس تھی، ایسا کیسے کرسکتے ہیں یہ لوگ۔ کیوں کیوں کیا ان لوگوں نے ایسا؟ میں نے بھی تفصیلات پڑھی تھیں ا ورحیران ہوتا گیا تھا۔ عدنان خاشقجی واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتا تھا اور سعودی ہونے کے ناتے سعودی حکمرانوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا رہتا تھا۔ سعودیوں کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار میں سعودی حکمرانوں کے طور طریقوں پر تنقید کرے۔

وہ ترکی میں سعودی حکومت کے سفارتخانے کے دیے ہوئے دن اور وقت پر اپنی منگیتر کے ساتھ قونصل خانے گیا تھا جہاں سے اسے اپنی پہلی بیوی سے ہونے والے طلاق کے کاغذات کی تصدیق شدہ کاپی حاصل کرنا تھی کیونکہ ان کاغذات کے بغیر وہ امریکا میں دوسری شادی نہیں کرسکتا تھاجب کہ اس کی منگیتر قونصل خانے کے باہر اس کا انتظار کررہی تھی۔ قونصل خانے میں موجود سعودی اہلکاروں نے اسے تشدد کرکے قتل کردیا تھا اورلاش کو تیزاب میں ڈال کر مکمل طور پر پگھلا دیا۔

اخباروں کے مطابق اسی شام کو لاش کو ٹکڑوں کی صورت میں قاتل اپنے ساتھ لے کر خصوصی طیارے پر سعودی عرب چلے گئے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے لوگ ہیں یہ دوسرے ملک میں مخالفت کرنے والے کو اس طرح سے ختم کردیتے ہیں۔ وہاں کوئی کیسے بولتا ہوگا مخالفت میں۔ کیا کرتے ہوں گے ان کا۔ کس طرح سے برباد کرتے ہوں گے۔ مخالفوں کو ان کے خاندانوں کو یہ سوچ کر ہی میرے تمام جسم پر جیسے لرزہ سا طاری ہوگیا تھا۔

کئی دنوں تک ہم دونوں خاشقجی کے بارے میں باتیں کرتے رہے اورانٹرنیٹ سے آگہی حاصل کرتے رہے۔ ایک دن آفس میں ہی لز کا ای میل آیا تھا کہ چند امریکی مسلمان عورتوں نے عدنان خاشقجی کی موت کے حوالے سے سعودی حکومت کوایک خط لکھا ہے جس میں حکومت پر تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عدنان خاشقجی کے بارے میں صحیح بات بتائی جائے اور قتل کرنے والے مجرموں کو سزا دی جائے۔ اس نے یہ خط اپنے جاننے والے سارے مسلمانوں کوبھیجا تھا کہ وہ اس پر دستخط کریں جس کے بعد اسے واشنگٹن کے سعودی ایمبیسی میں جمع کرایا جاسکے گا۔

شام کو میں نے پہلی دفعہ لز کی شکل پر غم کے ساتھ غصہ دیکھا۔ یہ خاشقجی کا غم اور اس کی منگیتر کا غم تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس درندگی کے خلاف کھڑا ہوجانا چاہیے۔ ظلم و جبر کے خلاف اور انصاف کے لیے تو کھڑا ہونا بہت ضروری ہے اس کے چہرے پر سوال تھا۔ اس نے غصے سے بتایا کہ اس کے آج کے ای میل کے بعد خاندان اورخاندان سے وابستہ کئی عورتوں نے اسے مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کا آلہ کار بننے کا الزام دے دیا تھا۔ میری بھابھی نے لکھا تھا عربوں کے بارے میں بری بات لکھنا، کہنا سننا حرام ہے۔ وہ نبیوں کی سرزمین ہے ان کا حساب اللہ لے گا ہم نہیں لے سکتے، تم مسلمان بن کر ہمارے خاندان میں آئی تھیں، اب دوبارہ جہنمی بن گئی ہو۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments