کورونا وبا : فرقہ پرستوں کا نیا ہتھیار


پچھلے دنوں جب بھارتی میڈیا نے کرونا وائرس کے پھیلاوٗ کے لئے دہلی میں بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے ہیڈکوارٹر اور اس کے ممبران کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کردیا تو جنوبی دہلی میں میری کالونی، جس میں زیادہ تر مڈل کلاس افراد رہتے ہیں، کی ریذیڈنٹ ویلفیر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری نے واٹس ایپ گروپ پر اطلاع دی، کہ کالونی میں سبزی فروش، پلمبر اور دیگر ایسے افراد کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔ گو کہ سیکرٹری نے مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا مگر سبھی جانتے تھے کہ جن افراد کا داخلہ بند کردیا گیا ہے وہ مسلمان تھے۔

پاس کی کالونیوں میں مسلمان چوکیداروں کی چھٹی کر دی گئی۔ دہلی کے نواح میں ایک پوش کالونی میں رہائشی میری ایک سابق کولیگ نے بتایا کہ ان کی کالونی کی ایسوسی ایشن نے سختی کے ساتھ تاکید کی ہے کہ کرونا وبا ء کے خاتمہ تک کسی بھی گھر میں کوئی مسلمان بطور مہمان یا کام کرنے کے لئے نہ آنے پائے۔ اس وبا ء کو فرقہ وارانہ رنگ دینا اور اس کو پوری طرح مسلمانوں کے سر منڈھنا نسل پرستی کی ایک انتہا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کے سبب دہلی میں ایک 22 سالہ مسلم نوجوان کو ایک بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔

شمال مشرقی صوبہ جھارکھنڈ میں بھیڑ نے ایک مسلم نوجوان کو قتل اور اس کے دو ساتھیوں کوشدید زخمی کردیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ہندو گھروں کے سامنے تھوک رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر کرونا جہاد اور تبلیغی وائرس کے ہیش ٹیگ چلا کر ایذا پسند ہندو انتہا پسندوں نے خوب مزے لوٹے۔ اسی لئے شاید معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے جرمن نشریاتی ادارے کو دیے انٹرویو میں خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت میں صورت حال مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اپنے صوبہ گجرات کے مین اسپتال میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے الگ وارڈ بنائے گئے ہیں۔ اتر پردیش کے میرٹھ شہر کے کنسر ہاسپٹل نے باضابطہ ایک اشتہار کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ اب نئے مسلمان مریضوں کو صرف اسی صورت میں قبول کرے گا جب وہ اور ان کے تیمادار وں کی کورونا رپورٹ نگیٹو ہوگی۔ مسلمانوں کے ساتھ نفرت کی یہ شدت بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ اسرائیل کے فلسطینی علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمروں نے نہ صرف یہودی آباد کاروں بلکہ اسرائیلی فوجیوں کی حرکات قید کی ہیں، جس میں وہ عرب مکانوں، دکانوں اور ان کی گاڑیوں کے اوپر تھوکتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔

مغربی کنارہ میں تو اسرائیلی سپاہی اسپتالوں کا فضلہ صندوقوں میں بھر کر پھینک آتے ہیں۔ ایک دہائی قبل امریکی اسکالر پال سلورسٹین نے لکھا تھا کہ 21 ویں صدی کے مسلمان نے 19 ویں صدی کے یہودی کی جگہ لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اینٹی سمیٹزم کی تشریح معلوم کرنی ہو تو اس میں یہودی کی جگہ پر مسلمان لکھ دو۔ اسی طرح سوئس نژاد کینیڈین فلم ساز کیون ساچز کے مطابق جس طرح کا پروپیگنڈہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق دنیا میں عام کیا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح کا گراونڈ 19 ویں اور 20 ویں صدی کے اوائل میں یہودیوں کے خلاف مغرب میں تیارکیا جا رہا تھا، جو ہولو کاسٹ پر منتج ہوگیا۔

مغربی اسکالروں نے پچھلی صدیوں میں باور کرایا تھا کہ یہودی متعصب، اور جاہل ہوتے ہیں۔ اور ان کا مذہب مغربی اقدار کے منافی ہے۔ معروف جرمن فلاسفر برنو باوئر نے 1844 ء میں یہودیوں کو مساوی حقوق دینے کی مخالفت کی تھی۔ اس کے برعکس اسی سال ترکی کی خلافت عثمانیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے یروشلم اور اس کے اطراف میں یہودیوں پر صدیوں سے عائد پابندیو ں کو نرم کر دیا گیا۔ بھارت میں جہاں اس وقت پورا ملک لاک ڈاؤن کی زد میں ہے، پولیس نے اس کا فائدہ اٹھا کر چن چن کر ایسے نوجوان مسلمانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو پچھلے کئی ماہ سے شہریت قانون کے خلاف ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ سفوراً زرگر کو دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے لاک ڈاؤن کے دوران ہی پوچھ تاچھ کے لئے اپنے دفتر بلایا اور گرفتار کیا۔ اس سے قبل اسی یونیورسٹی کے ایک اور اسکالر کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اس طرح کی گرفتاریوں کی خبریں ملک بھر سے آرہی ہیں۔ یہ سب ایسے وقت ہور ہا ہے جب کوئی وکیل میسر ہے نہ عدالتیں پوری طرح کام کر رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی شرمناک رپورٹنگ کا حال یہ ہے کہ پچھلے ہفتے انڈیا ٹوڈے چینل نے دہلی میں تین مدرسوں پر ایک اسٹنگ آپریشن کے بعد دعویٰ کیا کہ یہ وبا پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔

ان تین مدرسوں کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے بچوں کو چھپا کر رکھا ہو اہے اور معاشرتی فاصلہ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مگر جلد ہی اس کی ہوا نکل گئی۔ نیوز لانڈری نے پولیس، علاقے کے ڈاکٹروں و مدرسے کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد مدرسوں نے چھٹی کا اعلان کیا تھا اور بچوں کو ان کے گھروں کو بھیجنے کے لئے ٹکٹوں کا بھی بدوبست کیا تھا۔ مگر جب ٹرانسپورٹ ہی رک گئی تو ان کو ہوسٹلوں میں رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

وزارت تعلیم نے بھی ایک حکم نامہ میں تعلیمی اداروں کو ہدایت دی تھی کہ جو طالب علم اپنے گھروں کو نہیں جا پائے ان کے لئے ہوسٹلوں میں ہی رہنے اور کھانے پینے کا بندوبست کیا جائے۔ جب مارچ کے وسط میں دہلی میں تبلیغی جماعت کا اجتما ع ہو رہا تھاتو اس وقت تو کئی ہندو تیرتھ استھان بھی زائرین کے لئے کھلے تھے۔ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کی بے جا حجت اور ان کے رویہ نے معاملہ خراب تو کردیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا سیشن جاری تھا۔

لندن میں ہرے کرشنا موومنٹ کا ایک اجتماع جار ی تھا۔ اس میں شریک 30 افراد ابھی تک وبا کے شکار پائے گئے ہیں اور پانچ افراد کی موت ہو چکی ہے۔ مگر برطانوی میڈیا نہ عوام نے ہرے کرشنا کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کو وبا کے لئے مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی دوران وسطی صوبہ مدھیہ پردیش میں سیاسی ڈرامہ کھیلا جا رہا تھا، جہاں اپوزیشن کانگریس کی حکومت کا تختہ پلٹ کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت بنائی۔ اس ڈرامہ کے مکمل ہونے اور نئی حکومت کی حلف برداری کے بعد ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا۔

11 اپریل کو نئے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے وزیرا عظم مودی کو ویڈیوکانفرنس میں بتایا کہ بھوپا ل اور اندور شہروں میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے کرونا کی وبا پھیلی ہے۔ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ ان کے سیکرٹری ہیلتھ، اور اسی محکمہ کے ایڈیشنل سیکرٹری اور ڈپٹی دائریکٹر کورونا پازیٹیو پائے گئے ہیں۔ ان افسران کے بیٹوں نے ا مریکہ سے واپس آکر ٹیسٹ کروانے سے منع کردیاتھا ور علامات ظاہر ہونے کے بعد اپنی سفری تفصیلات بھی چھپائیں۔

اس دوران یہ افسران کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لئے میٹنگین بھی کرتے رہے۔ کورونا کا عفریت اس وقت پوری انسانیت کو نگلنے کے لئے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ پوری دینا کی معیشت، معاشرت اور صحت داوٗ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ عفریت قومیت نہ ہی مذہب کی دیواروں کا قائل ہے۔ اس وبا کو فرقہ وارانہ رنگ دینا اور اس کو کسی مخصوص فرقہ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا ایک اور تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ تعاون، اشتراک نہ کہ نفرت سے ہی اس وبا ء کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔
بشکریہ رونامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments