مولوی جیت گئے، حکومت مان گئی


لیجیے صاحب! آخرکار وہی ہوا، جس کا واضح امکان تھا۔ مملکتِ خداداد میں دین و ملت کے پاسبان پھر کامیاب و کامران ہوئے اور حکومت نے بالآخر وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتی چلی آ رہی ہے۔ حکومتی مداومتِ عمل کی بدولت ہم جیسوں کا اندازہ بھی درست نکلا جن کا کبھی تربوز سرخ نہیں نکلتا۔ اس فتحِ مبین کا اعلان تو علماءِ بے مثل نے اپنی پریس کانفرنس میں ہی کر دیا تھا لیکن فتح نامے پر مہرِ تصدیق کل صدرِ ذی وقار نے ثبت کی۔

اس تقریبِ پروقار میں ہادیانِ ملت کے تعاون پر اظہارِ تشکر بھی کیا گیا کہ انہوں نے کمال التفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو اعلامیہ جاری کرنے کی مہلت عطا فرمائی ورنہ اس قلمروِ مومنین کا ہر باہوش شہری جانتا ہے کہ مجاہدینِ عصر کو اپنے اعلان کو فرمانِ واجب الا ازعان بنانے کے لئے ایسے اعلامیوں شلامیوں کی کبھی حاجت نہیں رہی۔

قارئین کے صبر کی داد دیتا ہوں جو ابھی تک نہیں پوچھا گیا کہ آخر ہوا کیا ہے، کون سی فتح اور کیسا اعلامیہ، تو خود ہی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ مومنانِ زمن کو مبارکباد کہ علماءُ المسلمین کے عزم کی رفعتِ فلک بوس بحق مومنانِ ملکِ خداداد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے رمضان المبارک میں باجماعت نماز اور باجماعت تراویح کی ادائیگی کے لئے اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ ویسے اس عدیم المثال کامیابی پر امتِ مسلمہ کی سیادتِ دینی پر علماءِ پاکستان کا حق فائق ہو گیا ہے۔

علماءِ عرب اور جامعہ الازہر کے مفتیان کو چاہیے کہ یہ قلمدانِ عالی شان ازخود حقداران کے حوالے کردیں اور شتاب غیرتِ دینی اور حمیتِ ایمانی کے اسباق کی تحصیل کے لئے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں کہ وہ ہنوز خادم الحرمین الشریفین اور بلادِ مصر کے عمال سے باجماعت نماز اور تراویح کا اجازت نامہ نہ لے سکے ہیں۔

متفقہ اعلامیے کے نکات میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ نمازی وضو گھر سے کر کے آئیں اور ہاتھ کم ازکم بیس سیکنڈ تک دھوئیں۔ میرے خیالِ ناقص میں، بیس سیکنڈ کی درست پیمائش کے لئے ضروری ہے کہ حکومت مذکورہ نمازیوں کی ہتھیلیوں پر جدید ترین ٹائمرز بھی لگائے جو براہِ راست قومی نشریاتی رابطے سے منسلک ہوں تاکہ ٹائم شکن حضرات کی بروقت سرکوبی کی جا سکے۔

اعلامیے کی ایک ہدایت کے مطابق مساجد کے کلورین سے دّھلے فرشوں پر قالین یا دریاں بچھانا ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نمازیوں میں فاصلے کی کم ازکم مقدار چھ فٹ رکھی گئی ہے۔ نمازِ جمعہ میں عموماً نمازیوں کے رش کے باعث اگر کندھے سے کندھا ملا کر بھی کھڑے ہوں تو کئی نمازیوں کو مسجد کی چھت یا مسجد کے باہر جگہ ملتی ہے۔ سو مومنین کے لئے پیشگی خوشخبری کہ چھ فٹ والی شرط کی پابندی، بالخصوص نمازِ جمعہ میں، پوری ہونے کا دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ گرمی کے موسم میں دھوپ سے دہکتے ہوئے فرش پر بغیر چٹائی اور دری کے نماز کی ادائیگی اولیاء اللہ کا کام ہوگا ہم جیسے گناہگاروں میں تو ہمت نہیں۔

اعلامیے میں جاری کردہ ہدایات میں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور بغل گیر ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ اس غیر شرعی پابندی سے علماء اور امام مسجد صاحبان کو فوری استثناء دیا جائے بلکہ نمازیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ علماء و آئمہ حضرات سے فرداً فرداً بغلگیر ہوں اور ان کے منہ اور ہاتھوں کے بوسے لے کر اظہارِ تشکر کریں۔ یقیناً آئمہ کرام اس تجویز پر بخوشی عمل کرکے دین و ملت سے اپنی عملی محبت کا ثبوت دیں گے۔

اے نکتہ ورانِ ملتِ اسلامیہ! تفَنّن برطرف، کیا اس اعلامیے پر من و عن عمل ہوگا۔ فقط نشے کی حالت میں جواب اثبات میں دیا جا سکتا ہے۔ قوم کے عمومی مزاج کو نگاہ میں رکھیں تو فوراً یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ہدایاتِ اعلامیہ ایسے ہی اڑا دی جائیں گی جیسے غدر کے بعد باغیوں کو توپ سے اڑایا جاتا تھا۔

حضورِ اقدس! خدارا ہوش کے ناخن لیجیے اور غریب قوم کو موت کی طرف نہ دھکے لئے ۔ کیا دنیا بھر میں اموات کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے ناکافی ہے۔ کیا چہار جانب سے پیغامِ اجل لاتی ماتمی ہواؤں کا شور بھی ہمیں جگانے میں ناکام ہے۔ یہ وائرس کے پھیلنے کا peak time ہے، جو خاکم بدہن حکومت اور علماء کی مشترکہ معاونت سے انتہائی سطح پر جا سکتا ہے۔ سعودی عرب پر بطور امینِ خانہ کعبہ امتِ مسلمہ کا، بشمول اپنی عوام، ہم سے کہیں زیادہ دباؤ ہو گا، لیکن وہ دو ٹوک فیصلے سے، باجماعت نماز اور تراویح پر پابندی لگا چکا ہے۔

عید الفطر کی بابت اس نے ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ گھروں میں ادا ہوگی۔ اس سال حج کے انعقاد تک پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ جی ہاں، یہ وہی سعودی عرب ہے جسے ہم سے کئی رجعت پسند سمجھتے ہیں۔ اور ادھر ہم ہیں، جو اپنے تئیں روشن خیال اور ان سے کہیں زیادہ آزاد فضا میں سوچتے ہیں، قطعی غیر ضروری مذہبی جذباتیت میں ناعاقبت اندیشی کی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ اور سب سے افسوسناک امر، حکومت کا اس جذباتیت کے رد کے بجائے، اس کے سامنے بے بس ہونا ہے۔

خدا کا اپنی مخلوق سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ بیماری کی حالت میں بیٹھ کر اور بیٹھ نہ سکنے کی صورت میں اشاروں تک سے نماز پڑھنے کی اجازت دیتا ہے۔ کیا ایسا مہربان خدا جو ماں سے بھی ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے اور جسے مومن کی حرمت کعبے سے زیادہ عزیز ہے، وبا کے دنوں اپنی مخلوق کو مسجدوں میں باجماعت نماز کا حکم دے گا۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ ریاست کی ذمے داری تھی کہ عوام کو محولہ بالا ذہنیت کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھتی خصوصاً جب وہ ایران میں اس سوچ کے ہولناک نتائج دیکھ چکی تھی۔ لیکن افسوس کہ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے بجائے اس ذہنیت سے ایک مرتبہ پھر بلیک میل ہو گئی جو دین کی من چاہی تشریح سے قوم کو زیرِ تسلط رکھنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں عوام کو اپنا بچاؤ خود کرنا ہے، حکومت تو ہمیں ایک بار پھر ان کے حوالے کر چکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments