استاد کی عزت


جج صاحب یوں بیٹھے تھے جیسے مولوی حلوے کے انتظار میں بیٹھتے ہیں۔ سامنے دونوں گروہ بیٹھے تھے جن میں ایک استاد غلام علی صاحب تھے۔ جن پر الزام تھا کہ انہوں نے چودھری علی بخش کے چہیتے بیٹے کو ذاتی رنجش کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ جب کے استاد غلام علی کا موقف تھا انہوں نے حیدر کو ذاتی رنجش کی وجہ سے نہیں بلکہ سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے مارا ہے۔ اور اتنا بھی نہیں مارا کہ معاملہ عدالت تک لے جایا جائے۔

حیدر بھی اپنے چوہدری باپ کے ساتھ بیٹھا تھا جس کے بارے میں لوگ خیال کر رہے تھے کہ اس کے جسم پر ڈنڈے کے نشان پڑ گئے ہوں گے۔ حیدر کے ساتھ نورا اور گاما بھی جلوہ افروز تھے جنہوں نے زندگی میں کبھی سکول کا منہ نہ دیکھا تھا لیکن وہ غلام علی سے حیدر کی ظالمانہ پٹائی ہونے کے عینی شاہد تھے۔ عدالت کے اندر کم اور باہر فضول لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی جو چودھری علی بخش کی اعٰلی ظرفی اور ان کی قانون کی عزت کرنے کی تہہ دل سے معترف تھے۔

حالانکہ لوگوں کے خیال میں چودھری علی بخش اپنے ڈیرے پر ہی استاد غلام علی کو بلوا کر اپنے بیٹے حیدر سے پٹوا سکتا تھا۔ مگر چوہدری نے ایسا نہیں کیا بلکہ انصاف لینے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت نے کچھ دیر کے وقفے کے بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کرتے ہوئے نئے کیس کی سنوائی اور کارروائی کا حکم دیا۔

عدالت میں موجود سب لوگ اٹھ کر چلے گئے سوائے ایک کے اور وہ تھا استاد غلام علی۔

اور یہ نیا مقدمہ بھی استاد غلام علی کی عزت افزائی اور ان کی پیشہ ورانہ خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس مقدمے میں بھی جب استاد غلام علی پر امام دین کی طرف سے اسے جان سے مارنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تو جج صاحب نے استاد غلام علی سے گزارش کی کہ آپ پڑھانا چھوڑ کر لوگوں کو کراٹے کیوں نہیں سکھانا شروع کردیتے۔ استاد غلام علی نے اپنی صفائی میں کہا کہ اس پولیس والے نے (اشارہ کرتے ہوئے کہا) مجھ سے رشوت طلب کی تھی۔

مگر میں نے کہا کہ میں ایک استاد ہوں اور معاشرے میں موجود ایسی برائی کا ساتھ نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کی حمایت کر سکتا ہوں۔ اور میں نے اس پولیس والے کو وہ حدیث پاک بھی سنائی جس کے مطابق رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ تو یہ صاحب بگڑ گئے اور کہا آپ کے جہنمی ہونے میں تو کوئی شک نہیں جو مسلمان بچوں کو بے دینی کا سبق پڑھاتے رہتے ہو۔ مگر تم نے مجھے اس وطن کے محافظ کو جہنمی کہا ہے اس کی تمہیں سزا ملے گی۔ اتنا کہہ کر اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور بدلے میں میں نے ذاتی حفاظت کے لیے اسے دھکا دیا اور خود وہاں سے بھاگ گیا۔

اتنے میں پولیس والے کے ساتھ آئے ہوئے آدمی نے جس نے اصل میں استاد غلام علی پر لڑائی جھگڑا کرنے کا مقدمہ درج کرایا تھا بولا کہ جج صاحب استاد غلام علی نے مجھ سے دو ہزار روپے کا قرضہ لیا تھا اور واپس دینے سے انکاری ہوگئے۔ کل جب یہ راستے پہ مجھے ملے تو میں نے ان سے اپنا ادھار واپس مانگا تو یہ بگڑ گئے۔ اور الٹا مجھے جان سے مارنے پر تل گئے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ وقت پر یہ پولیس کا آدمی پہنچ گیا اور میری جان بچا لی۔

جج صاحب نے کہا پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ نے جھوٹی گواہیاں دے دے کر کب 2000 جمع کرلیے کہ آپ نے استاد غلام علی کو قرض بھی دے لیا۔ اور دوسری بات پولیس کی وقت پر پہنچنے کی تو ہم بخوبی جانتے ہیں جب رگوں میں کھولنے والا خون بہہ کر ٹھنڈا نہ ہو جائے تب تک ہماری پولیس نہیں پہنچتی۔ تو آپ کے معاملے میں یہ کرشمہ کیسے ہوگیا کہ پولیس وقت پر پہنچ گئی۔

اتنے میں اس آدمی نے پولیس کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا کہ جب معاملہ پولیس کے حامیوں وغیرہ کا ہو تو پولیس وقت سے پہلے بھی پہنچ جاتی ہے۔ اور میں جو پولیس کے لیے جھوٹی گواہیاں دیتا ہوں تو اس لیے پولیس پہنچ گئی۔

جج صاحب نے کہا کہ عدالت کچھ وقفے کے بعد آج کے دونوں مقدمات کا بالترتیب فیصلہ سنائے گی۔ وقفے کے بعد جج صاحب پھر سے اپنی مسند پر یوں آ بیٹھے جیسے بادشاہ اپنے دسترخوان پر آ بیٹھا ہو۔ مگر اس دسترخوان پر جج کو سچ کے کڑوے پھل پیش کرنے کے بجائے جھوٹ کے میٹھے اور پکے ہوئے پھل پیش کیے جاتے تھے۔

عدالت نے پہلے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استاد غلام علی کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور انہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ بچوں پر تشدد نہ کیا جائے۔ اور چوہدری علی بخش کو عدالت کو ایک فضول مقدمے میں الجھا کر وقت ضائع کرنے پر تنبیہ (وارننگ) دی جاتی ہے کے آئندہ ایسا فضول مقدمہ عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ استاد غلام علی کو کچھ حوصلہ ہوا کہ ابھی ملک کا نظام مکمل ختم نہیں۔ ابھی عدالتیں استاد کی عزت اور وقار کی محافظ ہے۔

اور وہ اگلے مقدمے کا فیصلہ سننے کے لیے وہیں بیٹھے رہے۔ اور چوہدری علی بخش نے اپنے وفادار نوکروں سے کہا کہ مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ اس عدالت سے ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ کچھ دیر کے بعد چوہدری علی بخش نے کہا کہ ہمارے جو روز پٹھے (چارہ) چوری ہوتے ہیں یہ استاد غلام علی ہی کرتا ہے۔ ہوشیار اور نیازمند نوکر نے عرض کی حضور استاد نے تو جانور ہی نہیں رکھے ہوئے۔ چوہدری کو کچھ خفت ہوئی پھر کہا ہمارے جو پھل چوری ہوتے ہیں مجھے یقین ہے یہ غلام علی کا ہی کام ہے۔ آج رات اسے ڈیرے پر بلاؤ اب ہم خود اس کا فیصلہ کریں گے۔

دوسرے مقدمے میں بھی باآسانی اور باعزت بری ہونے پر استاد غلام علی عدالت کو دعائیں دیتے ہوئے گھر کی طرف چلے تو دوسری طرف جج کی سخت باتیں سننے والے پولیس مین نے اپنے دست راست اور جھوٹے گواہ سے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ علاقے میں جو منشیات فروشی کا دھندہ عروج پکڑ رہا ہے اس کے پیچھے غلام علی جیسا چالاک آدمی ہی ہوسکتا ہے۔ آج رات اس کے گھر چھاپا مار کر سب مال برآمد کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments