اقلیتوں کو ووٹ کا حق



اس وقت پوری دنیا پر موت کی دیوی نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ معیشت تباہ ہو گئی ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی اذیت کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ لوگ طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بند ہو کراکتانے لگے ہیں۔ غریب ممالک میں رہنے والے نان ونفتہ کی فکر میں کسی حدتک سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھو بیٹھے ہیں۔ تخلیق کار گھروں میں بیٹھے اپنے ادھورے کام مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر چرچز نے نیٹ پر اپنے رب کو خوش کے لئے عبادات شرو ع کررکھی ہیں۔ مفکرین، دانشوراور سیاستدان گھر بیٹھے نیٹ پر متحرک ہو گئے ہیں۔ حکومتی امور بھی نیٹ کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ صرف راشن تقسیم کرنے کی غرض سے سیاسی لیڈر، این جی اوز اوران کے ورکرز گھر سے باہرنکل رہے ہیں۔ ایک اور طبقہ ہے جنہیں سلیوٹ ہے وہ ہیں سینیٹری ورکرز۔ ان کے پاس کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے کوئی لوازمات نہیں مگر پھر بھی وہ صفائی کے کام میں مصروف ہیں۔ تاکہ لوگ گندگی سے پھوٹنے والی بیماریوں کا شکار نہ ہو جائیں۔

یہاں اگرسیموئیل پیارا کا ذکر نہ کیا جائے تو بڑی زیادتی ہوگی جنہوں نے سپریم کورٹ میں سینیٹری ورکرزکو حفاظتی کٹیں فراہم کرنے کی اپیل کی۔ سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سینیٹری ورکرز کو ضروری حفاظتی کٹس فراہم کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ جس پر جلد عمل درآمد بھی ہو جائے گا۔ میڈیکل سے وابستہ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف مریضوں کو بچانے میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ فوج اور پولیس بھی قابل تعریف ہے۔ جوجانفشانی سے دن رات اپنا فرض ادا کرنے میں لگے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ اپنی کمیونٹی یا قوم سے وفادار ہیں۔ انہوں نے اگرچہ اپنی جدو جہد کو جسمانی طور پر روک رکھا ہے مگر ان کی جدوجہد کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔ وہ گھر بیٹھے انٹر نیٹ کے ذریعے اپنی کمیونٹی اور قوم کو شعور و آگہی دے رہے ہیں کہ وہ اس ناگہانی آفت سے اپنے آپ کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی اورسماجی حقوق کے حصول کے لئے کیسے متحرک ہو سکتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سوشل ایکٹیوسٹس اور انسانی حقوق کے علمبر دار زیادہ وقت میسر ہونے کی وجہ سے بہتر منصوبہ بندی میں مصروفِ عمل ہیں۔

72 سالوں سے زخم رسیدہ مذہبی اقلیتیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے اوراس سوچ کی تکمیل کے لئے کسی نہ کسی طریقے سے مستقبل کی بہتری کے لئے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاکہ مشکلات، امتیازی سلوک، استحصال اور کسمپرسی کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموش بیٹھ نہ رہیں بلکہ اپنی سوچ اور تحریک کی شمع کو روشن رکھیں تاکہ آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہو۔ کورونا وائرس کے آنے سے پہلے حکومتی کار کردگی کو دیکھکر یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں کہ مارچ تک موجودہ حکومت نئے الیکشن کا اعلان کردے گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ان مشکل حالات میں اپنی مدد آپ کے تحت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اس وقت وہ صرف عوام کی فکر اور اْ سکی مدد میں سرگرداں ہے۔

اقلیتیں پہلے ہی امتیازی سلوک کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں بھی عوام میں راشن کی تقسیم کے وقت کہیں کہیں مذہبی تعصب دیکھنے میں آیا۔ کئی جگہوں پر حکومتی اور اقلیتی نمائندوں کا راشن لے کر نہ پہنچنا بھی بغاوت کا باعث بنا۔ جس کی وجہ سے ووٹ کا حق دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس وقت تمام سیاسی لیڈرز اور باشعور مسیحی حکومت سے سلیکشن نہیں الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں یہ موجود ہے کہ رکن قومی یا صوبائی خفیہ بیلٹ بکس سے ہی منتخب کیا جائے گا۔

مگر آئین کے اس آرٹیکل کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اور اقلیتوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس غیر آئینی آرڈیننس کے خلاف سابق وفاقی وزیر جے سالک نے 2002 میں سپریم کورٹ اور شرعی عدالت میں بھی اقلیتوں کو ووٹ کا حق دیا جائے کے لئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے قومی اسمبلی کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ اقلیتوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے قانونی سازی کرے۔ الیکشن کمشنر نے آبزرویشن کے وقت یہ کہا کہ چونکہ الیکشن سر پر ہیں اس وقت اقلیتوں کے الیکشن کا انتظام کرنا ممکن نہیں۔

پھرکئی الیکشن گزر گئے اقلیتوں کی امید بھر نہ آئی۔ ان کا یہ مطالبہ زور پکڑتا گیا مگر آج تک انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یوں مذہبی اقلیتی سیاسی پارٹیوں کا ملکی سیاست میں عمل دخل ختم کرکے انہیں غیر فعال بنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن تک اقلیتوں کی کوئی حقیقی لیڈر شپ سامنے نہیں آ سکی جو ان کو درپیش مسائل سے نکال سکتی۔ سلیکشن میں جو حکومت کے منظو رنظر ہوتے ہیں سیاسی پارٹی انہیں سلیکٹ کر لیتی ہے اور ظاہر ہے اس سلیکٹ نمائندے نے اپنی پارٹی کے مفادات کے لئے ہی کام کرنا ہوتا ہے۔

اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ پارٹی کے خلاف اپنی کمیونٹی کے لئے قانون سازی یا ایسے کسی بھی ایشو کے خلاف آواز بلند کرے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید یہ محسوس کرتی تھیں کہ اقلیتوں کو دوھرے ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ وہ قومی دھارے سے جڑے رہیں اور اپنے نمائندوں کو بھی ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجیں۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت جب پی پی پی نے 1993۔ 1996 میں دوسری سیاسی جماعتوں سے مل کر کولیشن حکومت بنائی تھی۔

تو انہوں نے اقلیتوں کے اس حق کو کابینہ میں پیش کیا تھا مگر حامد ناصر چٹھہ نے، جو اْس وقت وزیر خارجہ تھے، یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ مسلم کو ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اقلیتوں کو دو ووٹ دینے کا حق دیا جائے اور یوں دوھرے ووٹ کا معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ حالانکہ دوھرے ووٹ کا حق کوئی اچھمبے کی بات نہیں۔ دوھرے ووٹ کا حق کشمیریوں کو بھی حاصل ہے۔ یورپ میں یورپین یونین کے تمام ممبر ممالک اپنے ملک کے لئے بھی ووٹ ڈالتے ہیں اور یورپین یونین کے ممبر کو بھی ووٹ دیتے ہیں۔

72 سالوں سے مشکلات اور مصیبتوں میں گرفتار اقلیتیں ووٹ کے حق کا پرزور مطالبہ کر رہی ہیں کہ انہیں اپنے نمائندے الیکٹ کرنے کاحق دیا جائے جو ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ اس لئے ملک بھر میں باقاعدہ مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ الیکشن سے آنے والے نمائندے اقلیتی عوام کے مفادات اور ووٹ بینک کا بھی خیال رکھتے ہوئے اپنی کمیونٹی کے لئے کام کریں گے۔ اس جائز مطالبے کی تکمیل کے لئے تمام اقلیتوں کویکجا ہو کر اور بھر پور جدوجہد کرنا ہوگی۔ بہت سے مدبرین کایہ کہنا ہے کہ ہم جداگانہ الیکشن سے دوسرے درجے کے شہری اور قومی دھارے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں لہذا انہیں دوھرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ بہر حال مذہبی اقلیتوں کو ووٹ کا حق جو آئینی اور جمہوری بھی ہے۔ انہیں ملنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments