ٹائیگر فورس: متبادل سٹرٹیجک اثاثہ


ہماری قوم کی یہ عادت ہے کہ وہ مکھی کے زخم پر بیٹھنے کی طرح مثبت اور قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں بھی کیڑے نکالنے لگتی ہے۔ اس کی حالیہ  مثال ٹائیگر فورس جیسی تنظیم پر کیے جانے والے مخالفین کے پے در پے اعتراضات ہیں۔ پہلے تو اس کے اس رومانوی اور تاریخی قسم کے نام پر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ فورس تو کپتان کے ایک نہایت وفادار، بہادر اور پیارے ساتھی کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ ہم نے لاکھ کہا کہ نام میں کیا رکھا ہے اصل چیز تو کام ہوتا ہے۔

پھر معترضین نے کہا کہ ٹائیگر فورس والوں کی وردیوں کا ڈیزائن پی ٹی آئی کے جھنڈے سے مستعار لیا گیا ہے۔ کپتان بڑی ہی ڈھٹائی سے قومی خزانے اور کورونا کی وجہ سے ملنے والی امداد کی خطیر رقم کو اپنی سیاسی پارٹی کی تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ رضا کاروں کی اس فورس کا باقاعدہ سیاسی ایجنڈا ہے جو کسی طرح قابل قبول نہیں۔

ایک بے سروپا قسم کا اعتراض یہ بھی جڑا گیا کہ یہ تو احساس کمتری میں مبتلا لوگوں کی طرف سے احساس کے نام پر چلائی جانے والی سیاسی مہم ہے۔ مگر کپتان جس کے گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس نے یہاں بھی کمال حکمت عملی سے تمام اعتراضات کی پروا نہ کرتے ہوئے نہ صرف ٹائیگر فورس قائم کردی بلکہ ٹائیگروں نے اپنی کارروائیوں کا کامیابی سے آغاز بھی کر دیا ہے۔

ڈی چوک میں اشاروں پر ناچنے والے ٹائیگر فورس کے رضا کاروں نے جب مستحقین کے لیے رقم اور راشن کی فراہمی کو تگنی کے ناچ سے مشروط کیا تو اس پر بھی معترضین چیں بہ جبیں ہونے لگے۔ آپ ہی انصاف کیجیے کہ اعضا کی شاعری کے بدلے امداد کی فراہمی فنون لطیفہ سے شغف اور خوش ذوقی و زندہ دلی کے بجائے اگر تنگ نظری اور منفی ہتھکنڈوں پر محمول کی جائے گی تو اس رویے کو کیا کہا جائے گا؟ سنا ہے کسی کور ذوق دل جلے نے بقول شاعر یہ کہہ کر امداد لینے سے صاف انکار کر دیا کہ

اپنا یہ جسم تھرکتا ہے بس اپنی دھن پر
ہم کبھی اور کسی دھن پہ نہیں ناچتے ہیں

مجھے تو یہ کوئی پختہ کار و سیاہ کار مخالف معلوم ہوتا ہے جسے زمانے کی ہوا تک نہیں لگی۔ وہ اگر قتیل شفائی کی وہ مشہور نظم پڑھ لیتا جس میں انہوں نے کسی رقاصہ کے رقص بسمل کے حوالے سے فرمایا ہے کہ

موہے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنی زور سے ناچی آج، کہ گھنگرو ٹوٹ گئے۔

یقیناً وہ پٹواری زنجیر پہن کر رقص کرنے کی روایت سے بھی بے بہرہ ہو گا۔ اگر وہ بابا بھلے شاہ کی طرح رمز شناس ہوتا تو یہ کہتے ہوئے دیوانہ وار جھومنے لگتا کہ تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا۔ ۔ ۔

ہماری نکتہ چیں قسم کی قوم کو کیا معلوم کہ یہ ٹائیگر فورس تو ہمارا متبادل سٹریٹجک اثاثہ ہے۔ یہ وہ بچھڑا ہے جو کھونٹے کے بل ناچتا ہے۔ کبھی اللہ کے فضل اور امریکہ کی کرپا سے ہمارے پاس ایک سے بڑھ ایک قیمتی قسم کا سٹرٹجک اثاثہ تھا۔ چاہیں تو ان سے قومی سطح کی خدمات لے لیں چاہیں تو بین الاقوامی سطح کی خدمات لے لیں۔ بد قسمتی سے ہمارے عالمی سپانسروں نے جلد ہی ہماری چالاکی پکڑ لی جس کی وجہ سے ہمیں یکبارگی نہ صرف ان اثاثوں سے لا تعلق ہو نا پڑا بلکہ پکڑ پکڑ کر انہیں اندر بھی کرنا پڑا۔

سو ہم کافی دن سے قابل اعتماد اور مخلص متبادل قومی اثاثوں کے جویا تھے جو بفضل خدا ہمیں ٹائیگر فورس کی شکل میں مل گئے ہیں۔ البتہ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں اثاثوں کے استعمال کے حوالے سے تھوڑا سا فرق یہ آیا ہے کہ پرانے سٹریٹجک اثاثے ہم اغیار پر چھوڑا کرتے تھے جبکہ ٹائیگر فورس کی شکل میں متبادل سٹریٹجک اثاثے ہم پاکستانیوں پر چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments