ایجنسیوں کاسیاسی کردار اور جنرل حمید کے ”گُل“


سابق چیف آف اسٹاف ڈائریکٹر یٹ جنرل آئی ایس آئی سید احمد ارشاد ترمذی اپنی کتاب ”Profiles of Intelligence“، جس کا اردو ایڈیشن ”حساس ادارے“ کے نام سے شائع ہوا، میں لکھتے ہیں :

پاکستان میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں نے اکثر خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی پارٹی کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ ماضی میں بہت سے موقعوں پر ان ایجنسیوں نے اقتدار کے دلالوں اور بادشاہ گر کا کردار ادا کیا۔ ملک میں بار بار کے مارشل لاء کے نفاذ نے بھی ان ایجنسیوں کے مزاج اور بنیادی مقاصد کو تبدیل کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ بھٹو کا جمہوری دور بھی ان الزامات سے محفوظ نہیں رہا، انہوں نے بھی سیاسی مخالفین پر نظر رکھنے کے لیے ان ایجنسیوں سے کام لیا۔

جنرل ضیاء نے ان ایجنسیوں اور ایجنٹوں سے سب سے زیادہ کام لیا۔ جنرل ضیاء کے طیارے کے حاد ثے کے بعد اس وقت کے ڈی جی، آئی ایس آئی، جنرل حمید گل ایک طاقتور شخصیت کے روپ میں سامنے آئے اور انہوں نے پاکستان کی سیاسی اساس کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی۔ پی پی پی کے مقابلے میں 9 بکھری ہوئی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور اس کو اسلامی جمہوری اتحاد کا روپ دینا انہی کی ”بصیرت“ کا نمونہ تھا۔ اگر میں انتہائی پیشہ ورانہ نظر سے جنرل حمید اور ان کے ساتھیوں کے بادشاہ گری کے اس کردار کا تجزیہ کروں تو مجھے یہ کہنے میں ذرہ برابر باک نہیں کہ انہوں نے قوم کی طرف سے دیے گئے فرائض میں بد دیانتی کی۔ ان کا یہ کردار آئی ایس آئی کی طے شدہ ذمہ داریوں سے بالکل ماورا تھا۔

اگر جنرل حمید اور ان کے اس وقت کے رفقاء کار یہ سمجھتے تھے کہ پی پی پی ایک ملک دشمن جماعت ہے تو ان کا یہ فرض تھا کہ اس الزام کو ناقابلِ تردید شواہد کے ساتھ عدلیہ اور قوم کے سامنے پیش کرتے اور قوم پی پی پی کے لیڈروں سے اس کا حساب لیتی۔ شاید جنرل حمید کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی سیا سی میدان میں آکر اسلامی جمہوری اتحاد کی باگ ڈور خود سنبھال لیں گے۔ لیکن یہ تمنا پوری نہ ہو پائی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک حساس ادارے کو اس کے ٹریک سے ہٹانے کے مجرم ہیں۔

پی پی پی اور آئی جی آئی کے مابین پیدا کردہ محاذ آرائی کی کیفیت ان لوگوں کی طمع اور ذاتی مفادات اور پسند نا پسند ہی ہو سکتی ہے اور اس کھیل میں آئی ایس آئی نے اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر ایک سیاسی دلا ل کا کردار ادا کیا۔ یہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک سپاہی سے لے کر آئی جی تک اور چپڑاسی سے لے کر وفاقی سیکرٹری تک بیشتر سرکاری ملازم مختلف سیاستدانوں کے ”وفادار“ کہلاتے ہیں۔

جنرل حمید گل کی اس کارستانی کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ خود آئی ایس آئی بھی سیاسی گروہوں میں بٹ جائے۔ وہ ادارہ جہاں سیاست، شجرِ ممنوعہ ہے، ایسے حالات میں ذاتی سیاست کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کے اہلکار اور عہدے دار اپنے اپنے سیاسی نقطہ نظر کو اپنی ڈیوٹی پر ترجیح دینا شروع کر سکتے ہیں (نوٹ: ترمذی صاحب نے یہ تجزیہ اپنی 1995 میں شائع ہونے والی کتاب میں کیا تھا) ۔ ظاہر ہے جب ایک ادارے کا سربراہ سیاسی گروہ بندیاں کرے گاتو پھر اس کے ماتحتوں کو ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے۔

ایک ایسا ادارہ جسے ایک طویل عرصے تک بہت سے محب وطن اور محنتی افراد نے اپنے خون پسینے سے استوار کر کے پاکستان کا ایک اعزاز بنا دیا تھا، گینگ ریپ کا شکار ہو گیا۔ انٹیلی جینس بیورو کی کارکردگی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں رہی۔ اس ضمن میں 17 جولا ئی 1994 کو دی مسلم میں شائع ہونے والے ایک خط کا حوالہ پیشِ خدمت ہے :

”غلام مصطفی جتوئی کے کمرے سے جا سوسی کے آلات برآمد ہونے سے ہمارے انٹیلی جینس اداروں کی کارکردگی مشکوک ہو گئی ہے۔ ان اداروں کے بارے میں نفرت کا اب یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی خفیہ ادارے کے اہلکار کی موجودگی بھی ارکانِ اسمبلی کے لیے قابلِ برداشت نہیں رہی۔ ان ایجنسیوں پر اب کھلے عام یہ الزام لگنے لگا ہے کہ یہ اپنے معمول کے فرائض کو چھوڑ کر حکومت کے سیاسی مخالفوں کی جاسوسی کرنے، انہیں ہراساں کرنے اور ان کے پیچھے بھاگنے پر ہی اپنی قوت ضائع کر رہے ہیں“۔

سید احمد ارشاد ترمذی صاحب کی اس کتاب کو شائع ہوئے کافی سال بیت گئے ہیں مگر تجزیہ کمال کا کر رکھا ہے، ایسا با کمال کہ بعد میں آنے والے بہت سے فاتحینِ ”ڈی چوک و فیض آباد“ کے ”فیض“ سے ثابت ہوا کہ یہ باعزت ادارہ انہی راہوں میں کھو گیا جدھر ترمذی صاحب نے اشارہ دیا تھا۔

نوٹ: تحریر کا زیادہ تر مواد سید احمد ارشاد ترمذی کی کتاب ”حساس ادارے“ سے لیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments