وکیل کا چبھتی نگاہوں سے ریپ


آج ہم چیمبر میں ویلے بیٹھے لمبی لمبی چھوڑ رہے تھے کہ ایک بہت ہی لمبی چھوڑ بیٹھے۔ ویسے بھی خواب دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کون سے پیسے لگتے ہیں۔ آج جاگتی آنکھوں سے خواب کیا دیکھا وہ بعد میں بتانا ہے پہلے ذاتی تجربات شیئر کرنا چاہوں گا۔

وکالت کی ڈگری کے دوران میں نے کبھی شوخی مار کر کالا کوٹ نہیں پہنا تھا ویسے بھی آغاز کے دنوں میں کالا کوٹ پہنتے ہوئے شرم محسوس کرتا کہ ابھی تک قانون کا قاف بھی نہیں پڑھا اور سمجھا اس لئے کالا کوٹ پہننے کی تک نہیں بنتی۔ نہ ہی ڈگری کے دوران کبھی اپنے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ کا اضافہ کیا۔ حالانکہ حرج نہیں تھا اور بہت سے اسٹوڈنٹس پہلی کلاس لیتے ہی اپنے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ کا نام چپکا دیتے ہیں۔ نام چپکانے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے مگر اپنا مزاج ہی ظالم کچھ ایسا ہے تو اب کیا کریں۔

پھر پورے پانچ سال کے دوران کبھی کچہری میں بھی دھکے نہیں کھانے گیا حالانکہ لوگ پہلا سمسٹر ختم ہوتے ہی ایڈووکیٹ بن کر کچہری میں پہنچ جاتے ہیں۔ گو کہ یہ بھی کوئی بری عادت نہیں جب انسان کو پتا ہو باقی ماندہ زندگی کچہری اور کورٹ میں ہی گزارنی ہے تو ابھی سے خود کو کیوں قید کیا جائے۔ جب پروفیشنل لائف میں قدم رکھا تو طالبعلمی کا حسین دور بہت یاد آئے گا اس لئے اس وقت کو کورٹ کچہری میں ضائع کرنے سے بہتر ہے تھوڑا انجوائے کیا جائے۔

ڈگری کے فوراً بعد ہم پر بھی لازم تھا کہ اب شرافت والا جبہ اتار کر وکالت والا جبہ پہن لیں۔ جب سمندر میں اترنا ہی ہے تو چھینٹوں سے کیا گھبرانا۔ اندازہ تو تھا کہ وکیل بڑے مشہور ہیں مگر ذاتی تجربہ ہرگز بھی نہیں تھا کہ اتنے بھی مشہور ہوسکتے ہیں۔ دور طالب علمی میں ہم دوست مزے مزے کے لطیفے سنایا کرتے تھے تو ایک لطیفہ جو شریعہ کے اساتذہ بطور طنز سنایا کرتے تھے کہ جب وکیل پیدا ہوا تو شیطان بولا لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے۔

ہم بڑی بے شرمی سے بتیسی نکال کر ہنستے تھے تاکہ عربی والے استاد کا دل خوش ہو اور اچھا گریڈ مل جائے۔ وہ یقیناً ہمارا استاد تھا مگر ہم بھی کم استاد نہ تھے۔ ڈگری مکمل ہوتے ہی شرافت کا جبہ اتار کر وکالت کا جبہ پہن لیا۔ جبہ پہنتے ہی ہمیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ جس جس سڑک سے گزریں گے ہوائیں سلام کرتی جائیں گی۔ پھول خوشبو بکھیر دیں گے، پرندے چہچانے لگ جائیں گے، لوگ کھڑے ہوکر سلوٹ مارنا شروع کریں گے کہ آج ہم وکیل بن گئے ہیں۔ مگر ہماری خام خیالی تب دھری کی دھری رہ گئی جب ہوائیں تھم سی گئی، پھولوں نے ہمیں دیکھ کر کھلنا چھوڑ دیا، پرندوں کا چہچہانا بند ہوگیا، خدا کی اشرف المخلوقات حضرت انسان ایسی چبھتی نگاہوں سے دیکھنے لگے جیسے ہم نے کوئی بہت بڑا پاپ کردیا ہو۔

بات سمجھ نہ آئی خیر تجربات ہوتے رہے اب تو ویسے بھی لوگوں کی چبھتی نگاہوں کی عادت سی ہوگئی ہے۔ مگر کبھی کبھار سوچتا ہوں آخر لوگ وکیل کو ان چبھتی نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں جیسے نظروں سے ریپ کر رہے ہوں۔ جیسے وکیل معاشرے میں ہراسمنٹ کا شکار ہورہے ہوں۔ شاید اس میں کہیں نہ کہیں وکلا کا قصور بھی ہے۔ اور بہت بڑا قصور ہمارے معاشرے میں پھیلائے اس غلط تاثر کا بھی ہے۔ اور بلاوجہ کے میڈیا ٹرائل کا بھی ہے۔ نظام انصاف کی پیچیدگیوں کا بھی ہے جہاں وکیل خود بھی بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

گہری سوچ و بچار کے بعد ایک حل نظر آیا کہ جیسے ہمارے فوجی بھائی کبھی ایلفا براؤ چارلی بناتے ہیں تو کبھی عہد وفا کو سامنے لاتے ہیں۔ کیوں نہ پاکستان بار کونسل بھی اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی عقد وفا بنا ڈالے، جس میں ایک وکیل کی تمام تر مشکلات، صرف قانون کی کتاب کا سہارا لے کر تھوڑی سی فیس کے لئے جان کی پرواہ تک نہ کرنے والا اس معاشرے میں اتنا بدنام کیوں ہے کہ لوگ اپنی نگاہوں سے ریپ کرتے ہیں۔ لوگ دہشتگرد سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کچھ کالی بھیڑوں نے اس پیشہ کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

مجھے ان وکلاء پر حیرت ہوتی ہے جو قانون و کالے کوٹ کو بدمعاشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میری ذاتی عادت تو یہ ہے کہ اگر عام لباس میں ہوتا ہوں تو کسی سے بحیثیت انسان کبھی الجھنا بھی پڑجاتا ہے۔ کبھی سبزی اور ہوٹل والے سے بحث بھی کرنا پڑتی ہے مگر جب کالا کوٹ پہنا ہوتا ہے تو 10، 20 روپے کے لیے الجھے بغیر اسے پیسے ادا کردیتا ہوں۔ صرف اس لئے کہ کسی ہوٹل یا سبزی والے کے ذہن میں امین مگسی کا نہیں کہیں کسی وکیل کا غلط تصور نہ بن جائے۔

اور ایک امین مگسی کے ذاتی رویے کی وجہ سے وہ سبزی اور ہوٹل والا تمام وکلاء سے نفرت نہ کرنے لگ جائے۔ مگر ہماری وکلاء برادری میں کچھ ایسے نمونے بھی ہوتے ہیں جو کالا کوٹ پہن کر سگنل توڑنا واجب سمجھتے ہیں۔ سبزی والے غریب یا ہوٹل والے مزدور سے 5 روپے کی خاطر الجھنا حق کی خاطر لڑنا مرنا سمجھتے ہیں۔ کسی کو اپنے کالے کوٹ کے بل بوتے پر آنکھیں دکھانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ ایسی بہت سی کالی بھیڑیں بھی ہیں جنہوں نے وکالت کے پیشہ کو بدنام کر رکھا ہے مگر کچھ معاشرے میں غلط تصور بھی پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ پیشہ خوف کا سبب بن رہا ہے۔

اس تصور کو ختم کرنے کے لئے پاکستان بار کونسل کو وکیل کی زندگی پر ایک فلم یا ڈرامہ ضرور بنانا چاہیے تاکہ ان تمام مشکلات اور حالات کو دکھایا جائے جن سے ایک وکیل کو گزرنا پڑتا ہے۔ اور معاشرے میں جو غلط تصور قائم کیا گیا ہے اسے ختم کرنے میں آسانی ہو ورنہ لوگ اپنی چبھتی نگاہوں سے یونہی وکیل کا ریپ کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments