صرف لاک ڈاؤن ہی عوام کو محفوظ رکھ سکتا ہے


کورونا کی تباہ کاریوں کو کم و بیش تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور ان تین ماہ میں دُنیا بھر میں کورونا نے لوگوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق دنیا کے 200 ممالک میں کورونا نے پچیس لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کیا ہے جن میں سے ایک لاکھ ستر ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی کورونا نے عوام کو متاثر کیا ہے۔ گو کہ کورونا کی شدت ہمارے ہاں کم ہے لیکن لاک ڈاؤن کے باوجود دھیرے دھیر ے اس کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کورونا کے حوالے سے جہاں دُنیا سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے وہاں ہماری قوم بہت دلچسپ تبصرے کر رہی ہے۔ کوئی تو اس کا حل زیادہ پانی پینے کو بتا رہا ہے کوئی لہسن کھانے کا مشورہ دے رہا ہے، کوئی گرم پانی پینے میں اس کا حل ڈھونڈ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر پاکستانی اپنے میں کوروناکا ڈاکٹر، حکیم اور معالج ہے لیکن ان تمام ٹوٹکوں کو طبی ماہرین نے مسترد کر دیا ہے۔ طبی ماہرین کورونا کا علاج صرف اور صرف اس کی ویکسین میں ہی ڈھونڈرہے ہیں اور اُس کے لئے وقت درکار ہے۔

کورونا کے حوالے سے ایک بُری خبر یہ کہ ووہان ( چین) میں کورونا نے ایک مرتبہ پھر اُبھرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ خبر سن کر پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو کورونا کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں پریشان ہو گئے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کورونا کی وبا آخرانسانوں پر سے کب ٹلے گی۔ دُنیا کے طاقتور ملک اس سے سخت پریشان ہیں اور تاحال کوروناسے ہونے والی اموات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ پوری دُنیالاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے۔

دُنیا کے وہ شہر جو سیاحت کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے اب وہاں ہو کا عالم ہے۔ لوگ ایسے گھروں میں دبک چکے ہیں کہ جیسا وہاں کوئی ذی رُوح ہے ہی نہیں۔ دُنیا کی موجودہ نسل کے لئے کورونا کا تجربہ یقینا خوف ناک ہے کیونکہ اس سے پہلے اس قسم کی وبا کم و بیش سو سال پہلے آئی تھی۔ گو کہ اس کے بعد بھی دُنیا کو مختلف وباؤں اور بیماریوں کا سامنا رہا ہے لیکن کورونا کا خوف اور دہشت شاید سب سے زیادہ ہے۔

پوری دُنیا اب یہ سوال کر رہی ہے کہ آخر یہ ختم کب ہو گا؟ طبی ماہرین اور ادارے جو تحقیق کر رہے ہیں اُس کے مطابق تو ایسا لگتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لمبے عرصے تک جائے اور وہ اُس کے ختم ہونے کی کوئی تاریخ دینے میں ناکام ہیں۔ اب سوال یہ کہ دُنیا اس کا مقابلہ کیسے کرے کیونکہ اتنے عرصے تک دُنیا کو گھروں میں محصور نہیں رکھا جا سکتا اور ایسا کرنا پڑا تو کیا ہر ملک اپنے شہریوں کو زندہ رکھنے کے لئے خوراک اور دیگر ضروریات پوری کر سکتا ہے؟

کیونکہ ابھی ہمارے ملک میں تو ایک مہینہ بھی لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے نہیں گزرا لیکن عوام اور حکومت دونوں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ہمارے ہاں تو عوام نے کورونا کی احتیاطی تدابیر کو گویا ہوا میں اُڑا دیا ہے اور وہ اپنے محلوں میں ایسی کھیلوں میں مصروف ہیں جو سماجی دوری (Social Distance) جیسی احتیاطی تدبیر کے بالکل برعکس ہیں۔

ان حالات میں حکومت کی بنائی گئی ٹائیگر فورس معلوم نہیں کب کام کرے گی لیکن عوام بالخصوص دیہاڑی دار طبقے میں بھوک کی شدت بڑھ گئی ہے۔ گو کہ ملک میں مخیر حضرات نے اپنے طور پر غریبوں میں راشن تقسیم کرنے جو مہم شروع کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اب حکومت کی طرف سے ”احساس ایمرجنسی کیش“ اور ”احساس پروگرام“ کے تحت عوام کو ریلیف دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس سے عوام میں کسی حد تک حکومت کے لئے نرم گوشہ ضرور پیدا ہوا ہے بس دُعا ہے کہ یہ پروگرام بغیر کسی رکاؤ ٹ کے چلتا رہے تاکہ وہ لوگ جن کو اس پروگرام کے تحت ریلیف مل رہی ہے کم از کم اُن کی تو مالی مشکلات کم ہوں۔

حکومت نے جہاں لاک ڈاؤن کی مدت کو بڑھایا ہے وہاں مختلف قسم کی دکانوں اور سیمنٹ انڈسٹری کو کھولنے کی اجازت دی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں عوام کی آمدوروفت اور چہل پہل میں اضا فہ ہو گیا ہے۔ اب ایک طرف تو پوری دُنیا گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے اور ہمارے ہاں اُس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے۔ خیر سے اب رمضان شریف شروع ہونے والا ہے تو اب ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے کہ مساجد میں باجماعت نماز ادا کی جائے۔ مذہبی راہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ ہر مسجد کے باہر حکومت سینی ٹائزر گیٹ مہیا کرے تاکہ ہر نمازی آسانی سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کر سکے۔

حکومت نے اس حوالے سے بیس نکاتی حتیاطی تدابیر کا ایجنڈا دیا ہے جسے باجماعت نماز سے مشروط کیا ہے اب اس پرآگے چل کر کیا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کیوں لاک ڈاؤن ختم کرنا چاہتی ہے کیا عوام مان لے کہ ہمیں جان بوجھ کر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے یا شاید یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ہماری عوام بڑی قوت ارادی کی مالک ہے جس کو کرونا سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ آپ پوری دُنیا کا مشاہدہ کریں جن ممالک میں کرونا کے متاثرین میں کمی آئی ہے وہاں اُنہوں نے لاک ڈاؤن کو اپنے ملک میں برقرار رکھا ہے اور لوگوں کو سختی سے پابند کیا ہے کہ ماسک سمیت وہ تمام احتیاطی تدابیر اپنائیں جس سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

شنید ہے کہ ملک میں مئی میں لاک ڈاون کو ختم کر دیا جائے، طبی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کی پابندی بالکل ختم کر دی گئی تو بڑے پیمانے پر تباہی آنے کا خدشہ ہے کیونکہ لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں ہماری عوام کے ٹیسٹ کیے جائیں تو یقینا کورونا کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہو گی۔

اس لئے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کھولنے کے اثرات کتنے شدید ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت اگر لاک ڈاؤن کھولنے کا سوچ رہی ہے تو اُسے اپنے ماہرین سے اس ضمن میں مشاورت کرنی چاہیے کیونکہ اگر کورونا کا دائرہ بڑھتا ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ بڑی تعداد میں عوام کو متاثر کرے گا اور حکومت تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ہمارے پاس کورونا سے لڑنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں صرف لاک ڈاؤن ہی ہمیں کورونا سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

عوام کو بھی اپنے وقتی فائدے کا نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ بتا یا جا رہا ہے کہ کورونا کا ایک متاثرہ شخص بہت سے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ ذرا سوچیئے کہ یہ بیماری اگر باہرسے آپ اپنے خاندان میں لے کر جاتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ اُس سے آپ دوسروں کو بھی متاثر کر یں۔ اس لئے یہ فیصلہ کرنے میں جلد بازی نہ کریں اور نہ ہی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ یاد رکھیئے آ پ کا ایک مثبت فیصلہ آپ کے پورے خاندان اور معاشرے کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال میں میری رائے ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہنے کے لئے تیار کریں۔ آپ اپنی استطاعت میں ضرورتمندوں کی جتنی مدد کر سکتے ہیں ضرور کریں اور اُن مستحق لوگوں کے رابطے اُن مخیر حضرات، اداروں اور حکومت سے کروائیں جوضرورت مندوں کی مدد کررہے ہیں۔ بچوں کو ایسی کھیلیں کھیلنے کی ترغیب دیں جس سے اُن کا دوسروں سے رابطہ کم ہو۔ آپ اپنی سرگرمیوں میں بھی دوسروں سے رابطہ کم کریں اور صرف اُس وقت باہر نکلیں جب آپ کا گھر سے باہر نکلنا ناگزیر ہے۔

یاد رہے کہ لاک ڈاؤن اُسی صورت میں کامیاب ہو گا جب عوام ا س کو کامیاب بنائے گی۔ خدا را اسے مذہبی مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اس کو سماجی مسئلہ سمجھتے ہوئے دوسروں کو اس کے بارے میں بتائیں کیونکہ ایسا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس میں ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر چلنا ہے تب ہی ہم ایک قوم ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اور دوسروں کو اس آفت سے محفوظ رکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments