ترک ڈرامہ ارطغرل : نسیم حجازی سے فاطمہ بھٹو تک


غالب امکان ہے کہ نیٹ فلکس اور یو ٹیوب کے اس دور میں ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے جن کے حافظے میں پی ٹی وی کے اور بہت سے شاہکار ڈراموں کی طرح سقوط بغداد کے پس منظر میں نسیم حجازی کا لکھا ہوا ”آخری چٹان“ محفوظ ہوگا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محترم شریف حسین عرف نسیم حجازی صاحب کے اسلامی اور تاریخی ناول پڑھنے والوں کے لئے دو دھاری تلوار کا کام کرتے تھے۔ ایک طرف تو آخری معرکہ، شاہین، قافلہ حجاز اور قیصر و کسریٰ پڑھ کر بندہ خود کو میدان جنگ میں محسوس کرتا اور اپنے جذبہ ایمانی کو تقویت پہنچا تا۔ دوسری طرف ہیرو کی نستعلیق اور پاکیزہ قسم کی محبت اور عشق کے تذکروں سے دیگر جبلی ضرورتوں کی بھی تشفی ہو جاتی۔ ان پڑھ مائیں جب کتاب کے سرورق پر گھوڑوں کی تصویریں دیکھتیں اور یوسف بن تاشفین قسم کے نام سنتیں تو انھیں یقین ہونے لگتا کہ وہ جانے انجانے میں ملت اسلامیہ کو دوسرا صلاح الدین ایوبی دے چکی ہیں۔

ڈرامہ ایک آرٹ فارم ہے اور آرٹ کی دیگر اقسام کی طرح وہ اپنے اردگرد، انسانی زندگی کے حال اور ماضی سے بہت سی چیزیں مستعار لیتا ہے۔ لیکن اس فنی رعایت کو تخلیق کے طور پر ہی دیکھنا اور سراہنا چاہیے۔ اگر اس میں سیاسی، مذہبی یا دیگر مقاصد اور لوازمات شامل ہو جائیں تو ایسا ڈرامہ، فن کم اور پراپیگنڈہ زیادہ بن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل معروف لکھاری مستنصر حسین تارڑ کو آئی پیڈ تحفے میں ملا تو عثمان پیر زادہ صاحب نے انھیں اس پر ترک ڈرامہ ارطغرل دیکھنے کا مشورہ دیا۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ پانچ سیزن اور قریب ڈیڑھ سو اقساط پر مشتعمل اس عالمی شہرت یافتہ ڈرامے کی کتنی اقساط تارڑ صاحب دیکھ سکے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ عثمان پیر زادہ صاحب اور تارڑ صاحب نے اس ڈرامے کو خالص تخلیقی نقطہ نظر سے ہی دیکھا ہو گا نہ کہ کوئی مذہبی قسم کی چیز سمجھ کر۔

یقینا ارطغرل ڈرامہ اپنی اداکاری، ہدایتکاری، عکس بندی وغیرہ کی بدولت اس قدر شاندار ہے کہ اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ترک ڈرامہ کی روایت جسے ترکی اپنی زبان میں ڈزی کہتے ہیں گزشتہ ایک دہائی میں کھل کر سامنے آئی ہے اور دنیا بھر میں اس نے مقبولیت حاصل کی ہے۔ فاطمہ بھٹو اپنی حالیہ کتاب ”نیو کنگز آف دی ورلڈ“ ( فن کی دنیا کے نئے حکمران) میں ترک ڈزی، کورین پوپ موسیقی اور ہندوستانی فلموں کو مشرق کے ایسے عروج سے تعبیر کرتیں ہیں جس نے برسوں سے مغرب کی فنون لطیفہ پر قائم اجاراداری کو للکارا ہے۔ ( ایسے میں ایرانی سینما اور فلموں کو نظر انداز کرنا حیران کن ہے ) ۔

اب ارطغرل ڈرامہ اردو میں ڈب کر کہ یکم رمضان سے پی ٹی وی پر نہایت شان و شوکت سے دیکھایا جائے گا۔ یہ فخر اور تعریف کا نہیں، ایک ایسے شاندار ادارے کے لئے فکر (یا پھر شرمندگی) کا مقام ہے جس کے بناے ہوئے ڈراموں کی وجہ سے شہروں کی سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن فی زمانہ الٹی گنگا بہہ نکلی ہے اب جہاں شرمندہ ہونا ہوتا ہے وہاں فخر کیا جاتا ہے۔ دوسری خطرناک بات ایک تخلیقی اور فنی شاہکار کو زبردستی مذہب کے ساتھ نتھی کرنے کا ہے۔ رمضان کا انتخاب بذات خود معنی خیز ہے۔ کیا ارطغرل اپنے جنگجو قبیلے کو لے کر کسی جہاد پر نکلا تھا۔ نسیم حجازی کی کہانیوں کی طرح ارطغرل ڈرامہ زیادہ سے زیادہ ایک تاریخی فکشن کہلاے گا، جس میں آدھا سچ ہو گا اور آدھا زیب داستان۔ لیکن داستان گوئی کے معاملے میں نسیم حجازی بہرحال زیادہ قابل اعتماد تھے۔ ان کے تاریخی اور اسلامی کرداروں اور ان کی جنگوں پر سیر حاصل تاریخی مواد موجود ہے جیسا کہ محمّد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان وغیرہ جسے انہوں نے بخوبی استعمال کیا۔ نوے سال کی عمر پانے والے ارطغرل کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ تاریخ کے ان پراسرار کرداروں میں سے ہے جن پر تاریخی مواد کی کل تعداد ابن عربی سمیت کچھ مورخوں کے لکھے ہوئے چند صفحات اور ان دو سکوں پر مشتمل ہیں جو اس کے بیٹے عثمان نے اپنے والد کی یاد میں جاری کیے۔ ارطغرل کی وفات کے سو سال بعد عثمانی مورخوں نے اس پر لکھنا شروع کیا اور اتنے عرصے بعد لکھے ہوے درباری قسم کے مواد کی مورخوں کی نظر میں میں کچھ اہمیت نہیں۔

ارطغرل ڈرامے کی سیاسی اور تاریخی نوعیت کو بھانپتے ہو ئے ہمارے کچھ اسلامی بھائیوں نے جن میں سعودیہ، متحدہ عرب امارت اور مصر شامل ہیں اس پر پابندی لگا دی ہے بلکہ مصرمیں اس کے خلاف ایک عدد فتویٰ بھی جاری کر گیا ہے۔ اچھی باتیہ ہے کہ یہاں ایسے کسی فتوے کی گنجائش نہیں۔ لہذا آپ ارطغرل کو نسیم حجازی والا اسلامی تاریخی ہیرو یا آئیکون سمجھیں یا پھر فاطمہ بھٹو والے ترک ڈزی کا ایک شاندار ڈرامائی کردار، بس یہ یاد رکھیں کہ یہ ایک ڈرامہ ہے۔ آپ کے ا سکول کے زمانے کا اسلامیات کا پیریڈ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments