ہنسیے! کرونا اتنا بھی خطرناک نہیں


کچھ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی کوئی بات ہو۔ ذکر ہے 2005 ء کی تیسری سہ ماہی کا ’جب ان ناتواں کندھوں نے اپنی ٹیم کا بھرم اور اپنے نام کی لاج کے لئے اس نئی افتاد سے نپٹنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس وقت ایک ایسے شاعر کی ضرورت آن پڑی تھی جو اپنی نمکین و مسکین شاعری سے یونیورسٹی کے سالانہ عشائیے میں زیادہ نہیں تو ایک دو چاند ہی لگا سکے۔

بہت ڈھونڈا ’بڑی جوتیاں چٹخائیں لیکن ایک ایسا شخص نہ ڈھونڈ پائے‘ اللہ جانے کولبمس نے امریکہ کیسے ڈھونڈ لیا تھا ہم تو شاعر کی تلاش ہی میں نڈھال ہو گئے تھے۔ جب کہیں سے کوئی آس امید بن نہ پڑی تو مجبوراً خود ہی قلم اٹھانا پڑا اور جب لکھ چکے تو پتہ چلا کہ عائلی زندگی کے پر لطف آغاز ’اس کے نشیب و فراز اور پسپائی تک کے حالات کو 33 اشعار میں ڈھال چکے ہیں۔

اس نظم کو وائس چانسلر پروفیسرز اور یونیورسٹی کے کم و بیش آٹھ ڈیپارٹمنٹ کے طلبا کی موجودگی میں پیش کیا جانا تھا تو با دل نخواستہ اس کو پیش کرنے کا سہرا بھی اپنے ہی سر سجانا پڑا۔ اس نظم میں محض ہنسی کھیل کا ذکر نہیں تھا بلکہ نوجوانوں کے لئے باقاعدہ پندونصاح کے باب بھی تھے۔ جیسے بردکھاوے سے بھی پہلے کے خیالات و حالات کا شکار کنفیوز امیدواروں کو بتایا کہ:

بات تو کریں ’شاید کہ بات بن جائے
وگرنہ انہی کے بچوں کا ماموں بن جائیے گا

زندگی کی رنگینوں میں ایسا کھوئے کہ آٹے دال کا بھاوَ تک بھول گیا۔ اور جب نشہ ہرن ہوا تو پتہ چلا کہ پیمپرز اور دودھ لانے کے چکر میں بہت سی حسرتیں ابھی تک آسودہ ہی نہ ہو سکیں۔ اور ایسی ہی ایک حسرت کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کیا کہ:

ہماری تو یہ حسرت ہی رہی کہ سنیں زوجہ کے من٘ہ سے
اجی آفس سے گھر آج ذرا جلدی آئیے گا

پندونصاح کے ساتھ اس میں مفید اور کارگر مشوروں کا بھی اہتمام تھا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں آپ یوں سمجھ لیں کہ جیسے کسی دور میں گھر کی بہو بیٹیوں کو ’بہشتی زیور‘ کتاب بڑے ذوق و شوق سے دی جاتی تھی ویسے ہی ہماری اس نظم کے پرنٹ نوجونوں میں تبرکاً بانٹے گے تاکہ کوئی بھی اس فیض سے محروم نہ رہ جائے۔ آپ کے یقین کی خاطر یہ ایک شعر پیشِ خدمت ہے کہ:

اگر گھر میں دوستوں کی پارٹی ہو مقصود
بیوی کے بھائیوں کو ضرور بلوائیے گا

قید کی صعوبتیں بلاشبہ بہت کٹھن ہوتی ہیں اوربسا اوقات تو یہ قید جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اور ایسی قید جو خود سے قبول کی ہو ’اس میں انسان جلد حوصلہ ہار جاتا ہے۔ ایسے میں گزارش ہے کہ اپنی سوچیں صرف خود تک ہی محدود رکھیں اور فریقِ مخالف کے ساتھ اپنے موازنے سے ہر صورت باز رہئیے کیونکہ:

وہ ہر حال ہر لمحہ ’درست ہی ہوں گی
آپ صرف نصف بہتر ہیں ’دھیان میں یہ لائیے گا

آج کل کے لاک ڈاوَن کی کیفیت کا اندازہ اگرچہ اس وقت نہیں تھا لیکن اتفاق دیکھئیے کہ اس وقت کا لکھا ہوا بھی ان موجودہ حالات کی صحیح ترجمانی کررہا ہے۔ با الفاظِ دیگر کہ بیچارے قیدی کے حالات تو یکساں ہی رہتے ہیں بھلے وہ لاک ڈاوَن ہو یا نہ ہو اس کا ناک ڈاوَن جاری رہتا ہے۔ یہ آخر میں لکھا ہوا قطعہ شاید تمہید میں ہی لکھ دینا چاہیے تھا لیکن پھر بھی گزارش ہے کہ اونچی آواز میں یہ پڑھنے کے ردعمل کے ہم ذمہ دار نہیں :

فرشتہ نہیں انسان ہیں ’غلطی ہو ہی جاتی ہے
حفظِ ماتقدم کی ہر تدبیر بروئے کار لائیے گا
جن چیزوں سے چوٹ کا اندیشہ ہو زیادہ
انہیں تو بیوی کی پہنچ سے دور ہی رکھوائیے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments