تیل کی قیمت منفی ہونے کے پیچھے ایک پاکستانی کا ہاتھ ہے


آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تیل کی قیمت کیوں منفی ہوئی؟ نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی تیل کی منڈی میں اگر کوئی کمپنی مئی کے مستقبل کے سودوں میں ایک بیرل تیل بیچتی ہے تو اسے خریدار کو اپنے پلے سے 30 ڈالر بھی ساتھ دینے پڑ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ تیل کی ریفائنریاں خام تیل خرید کر اس کا پٹرول، ڈیزل اور دیگر مصنوعات بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ دنیا بھر میں تیل کی ڈیمانڈ کم ہو چکی ہے۔ تیل کے ذخائر بھر چکے ہیں اور نیا تیل سٹور کرنے کی جگہ باقی نہیں بچی۔ تیل کے کنویں اور ریفائنریاں اس کے باوجود کم از کم استعداد پر چلانا ضروری ہے اس لیے ان کی پیداوار بند نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال ہمیں پٹرول پمپ پر تیل کے ہر لیٹر کے ساتھ تیس روپے نہیں ملیں گے۔ پٹرول پمپ پر تیل کی قیمت کا تعین سپلائر کرتا ہے اور پھر اس میں سرکاری ٹیکس وغیرہ بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

ہم نے اس معاملے پر غور کیا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تیل کی قیمت اس بری طرح گری ہے۔ کرونا کا تو بہانہ ہے، اصل وجہ کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ کرونا نے پٹرول کا خرچہ تو کم کر دیا ہے مگر ایسی بھی لوٹ نہیں مچی کہ تیل ایک وبال بن جائے۔ اس معاملے پر خوب غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ ایسا ہوا ہے کہ تیل اب اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ گزشتہ چند برسوں سے یہ خبریں تو چل رہی تھیں کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں 2030 سے 2040 کے درمیان پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں ختم ہو جائیں گی اور اس کے بعد تیل پیدا کرنے والے ممالک کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ لیکن اس تاریخ سے دس سے بیس برس قبل تیل کی بے قدری کیوں ہوئی ہے؟ کیا کسی انقلابی ٹیکنالوجی نے تیل کو بیکار کر دیا ہے؟ ہماری رائے میں ایسا ہی ہے اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ انقلاب لانے کا سہرا دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم یعنی پاکستانیوں کے سر ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سندھ کی وادی کا ایک سپوت اپنی واٹر کٹ لے کر اٹھا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ وہ پانی سے گاڑی چلا سکتا ہے۔ شروع میں اس کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا مگر جب خورشید شاہ جیسے مدبر وزیر، حامد میر جیسے اینکر اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے سائنسدان نے اسے اہمیت دی تو لوگ بھی اسے توجہ دینے پر مجبور ہو گئے۔

پاکستان کے عظیم سپوت آغا وقار نے وفاقی وزیر خورشید شاہ کو اپنی اس انقلابی ایجاد کے بارے میں بتایا تو وہ اس معاملے کو وفاقی کابینہ میں لے کر گئے جہاں اس پر بحث کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی۔ وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی میر چنگیز خان جمالی نے آغا وقار کی واٹر کٹ کا عملی مظاہرہ دیکھا اور اس ایجاد کو ایک انقلابی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

پاکستان میں سائنس اور صنعتی تحقیق کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر شوکت پرویز نے آغا وقار کی تعریف کرتے ہوئے ”واٹر کِٹ“ کو ایک ممکن منصوبہ قرار دیا۔ واٹر کِٹ کو جلد ہی پاکستان میں کئی سرکاری سائنسی اداروں اور پاکستان میں ایٹم بم کا باپ کہلانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت بعض قومی سائنسی شخصیات کی حمایت حاصل ہوگئی۔ عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے حامد میر کے پروگرام میں کہا ”میں نے اس معاملے کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں کوئی دھوکہ شامل نہیں ہے۔“

اس پر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی جیسے سائنسدانوں کو خوب خفت اٹھانا پڑی جو کہتے تھے کہ پانی کو ایندھن میں تبدیل کرنے کے لیے جتنی توانائی درکار ہو گی، وہ اس سے زیادہ ہے جو پانی سے پیدا شدہ ایندھن سے ملے گی اور یوں یہ دعویٰ تھرموڈائنامکس کے قوانین کے خلاف ہے۔ یہ کہا گیا کہ کسی نے تھرموڈائنامکس کا صدیوں سے ثابت شدہ چلا آ رہا قانون توڑا تو اسے نوبل انعام ملے گا۔

اس کے بعد ظاہر ہے کہ تیل کی طاقتور امریکی لابی اور اسرائیل، ہندوستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں نے اس کے خلاف کام شروع کر دیا۔ اگر تیل کی بجائے پانی سے چلنے والے انجن پاکستان میں بننے لگتے تو اس کے نتیجے میں تیل کی مارکیٹ ختم ہو جاتی۔ مشرق وسطیٰ اور امریکہ کو جانے والا تیل کا پیسہ رائلٹی کی صورت پاکستان میں آنے لگتا۔ پاکستان ایک اقتصادی سپر پاور بن جاتا۔ زندگی بہت آسان ہو جاتی۔ درآمد شدہ تیل اور گیس سے چلنے والے بجلی گھر دریائے راوی کے زرخیز پانی سے چلنے لگتے۔ ہم جیسے کسی آدمی کو کسی کام سے جانا ہوتا تو پانی کے نلکے میں پائپ لگاتا اور گاڑی کی باڈی پر سپرے مارنے کے علاوہ دس بیس لیٹر پانی اس کی ٹنکی میں بھی ڈال دیتا اور مفت میں سفر کرتا۔

غیر ملکی سازشوں کی وجہ سے آغا وقار جس تیزی سے ایک روشن ستارہ بن کر پاکستان کے آسمان پر نمودار ہوئے تھے، ویسے ہی اچانک غائب کر دیے گئے۔ دوسری طرف ان کے حامیوں پر دباؤ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی دیوقامت شخصیت بھی پاکستان میں سائنس دانوں کی برادری اور سوشل میڈیا کی جانب سے اس معاملے پر شدید تنقید کے بعد اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئی اور انہوں نے ٹویٹ کیا ”واٹر کِٹ کے بارے میں میرے موقف کو سمجھنے میں غلطی کی گئی۔ میں نے کہا تھا کہ ہمیں اس شخص کو اس کی بات ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔“

اب اس واقعے کے آٹھ برس بعد اچانک امریکی منڈی میں تیل پانی سے بھی سستا ہو گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اب آغا وقار کی ٹیکنالوجی چرا کر صنعتی پیمانے پر واٹر کٹ سے چلنے والے بجلی گھر، گاڑیاں اور جہاز بنانا شروع کر چکے ہیں۔ اب ہماری ایجاد کردہ واٹر کٹ ہمیں ہی مہنگے داموں لگائی جائے گی۔

ہم نے اسی خدشے کا اظہار اپنے ایک گزشتہ مضمون میں بھی کیا تھا۔

اسی بارے میں: کیا عظیم پاکستانی موجد آغا وقار کو بھی امریکی لے گئے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments