کہیں سپر_کہیں محوِ تماشا


کون کہتا ہے عشق کے بغیر دین مکمل ہے۔ موت کے بستر پر امانتیں لے کر سوئے رہنے جیسی تابعداری ہوتی ہی وہاں ہے جہاں عشق نے گھر کر رکھا ہو۔ یہ کہاں کی عقل ہے کہ کوئی زندگی کے چالیسویں سال اقرار کرے مجھے اللہ نے پیغام بھیجا اور جھٹ سے مان لیا جائے۔ کہاں کی عقل کہتی ہے کوئی صبح اُٹھ کر فرمائے میں نے معراج کی سیر کی اور کوئی بن دیکھے اس کی ایسی تصدیق کرے کہ صدیق بن جائے۔ کچھ میدان خالص عشق و محبت کے ہوتے ہیں جبھی تو ایک اشارے پر سب سجدے میں گر پڑتے ہیں۔

ایسے میں جب عقل کودتی ہے تو عزازیل کو ابلیس کر چھوڑتی ہے۔ عقل کا کام ہے سوال گھڑنا، وہ سوال گڑھتی ہے۔ سو عقل اُٹھی اور سوال کیا میں نوری، میں متقی، یہ خاکی، یہ خطاکار، یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ وہ جو عشق میں تابعدار بنے جھکے تھے، جواب دیا ارے بس وہ کہہ رہا ہے تو کر جا۔ تُو نے اُس پہ ہی سوال کردیا جس نے تجھے سوال دھرنے کی جرات دی۔ یہ مثالیں اللہ نے خود چھوڑی ہیں۔ عقل والے تو عاقل ہیں ان کی عقل یہاں اندھی کیوں ہو جاتی ہے کہ جہاں عقل نے کام خراب کیا وہیں عشق نے کام سنوار دیا۔

اکثر تنہا عقل نے بنے بنائے عزازیل کو ابلیس کر چھوڑا، میری مراد بنے بنائے کام کو خراب کر چھوڑنے کی ہے۔ کچھ مقامات پر عقل کو عشق کی ضرورت ہے، یہ تنہا گمراہ ہو جاتی، بھٹک جاتی ہے، کہیں تنہا بھی کام کر جاتی ہے۔ اکثر مقامات پر عقل اکیلی رہے تو گمراہی کی کشش اُسے گھیر لیتی ہے۔ اُسے اکثر مواقع پر عشق کا ساتھ چاہیے۔ ایسے میں کبھی عشق عقل کا سرپرست تو کبھی عقل عشق کی سرپرست بنے اسے سدھارتی ہے۔ معاذ اور معوذ بھی عقل کو شکست دینے کے لیے بدر میں کودتے ہیں۔

گویا اصحاب نے بھی فرشتوں کے واقعِ عشق کو خوب سینے سے لگایا اور گرم جوشی سے اپنے افعال میں بھی اس کا استقبال کیا۔ ابو جہل کو معاذ اور معوذ نہیں بلکہ محبت و عشق مل کر قتل کرتے ہیں۔ اب آئیں نا اہلِ دانش، اپنی عقل کا رعب جھاڑنے۔ ذرا سوال اُٹھائیں معاذ پہ کہ تمھیں کس نے کہہ دیا تھا میدانِ جنگ میں کودو؟ تمہاری نہ عمر تھی، نہ لازم تھا، نہ واجب، نہ فرض، نہ سرکار کی اجازت اور جان تھی اللہ کی امانت جس کے ضیاع کا حق نہیں تھا تمہارے پاس، پھر تم اللہ کی امانت میں خیانت کرنے چلے تھے؟

حضور کی نا فرمانی کرنے چلے تھے؟ جناب آپ نے اتنی محنت کی، عقلی باتیں کرنا کوئی بات ذرا سی تو نہیں مگر یہ کیا کہ وہ پھر بھی صحابیت کے درجے پر؟ وہ صحابہ کے بوسوں کے حقدار بنے؟ حضور کی شفقت و محبت بھری نگاہ سے سیراب ہوئے اور آپ؟ محض پیکرِ عقل رہے تو یہ خدا بھی ختم کر دے گی، اے تھیسٹ بنادیتی ہے۔ کہتی ہے جب کوئی وجود نظر ہی نہیں آرہا تو اس کو تسلیم کیوں کر کیا جائے۔ پھر وہ عقل جس کا ساتھی عشق تھا نا ہاں وہی پھر سے آتی ہے چند کائنات کے نظام میں روانی جیسے بچگانہ عقلی دلائل کے بعد بتاتی ہے کہ وہ یقین ہی کیا جو یقین کر کے کیا۔

سرکار کے وصال پر عشق عمر کو تلوار دے کر گھر سے باہر نکالتا ہے خبردار میرے محبوب کے جانے کی خبر مجھے نہ دینا۔ عشق کے بغیر تو عمر کی زندگی بھی مکمل نہ ہو سکی۔ عقل پر پرکھنا بجا ہے مگر عشق پر پرکھنا بھی جزا ہے۔ مجھے تو عشق نے جگایا راتوں کو کہا نماز پڑھو، خدا نیند سے پاک ہے، تمہیں تکتا ہے، تمہیں سُنتا ہے۔ میں نے سُنا وہ مجھے سُنے گا۔ میں غافل رہا، مجھے پھر بھی سُنے گا، مجھ پر تو غشی طاری ہوئی۔ میں لپکا، دوڑا، جائے نماز پہ رویا، سر بسجدہ رویا۔

مجھے تو عشق نے ملاقاتِ یار کرائی۔ اب وہ ملاقات قبول نہیں ہو گی یا وہ نماز نہیں تھی؟ محترم اس عشق کو کہاں کہاں یاد کرو گے، میرا آدھا دین تو یہ مکمل کراتا ہے۔ صاحبو تمھیں عقل لے کر گئی تو تھی۔ قبول تمھاری نماز بھی کرا چھوڑی مگر بڑی ہی تیز نکلی نفع و نقصان، جزا و سزا کی لالچ دے کر لائی۔ عثمانِ غنی جب گھر کا آدھا سامان لینے آئے تو عقل نے کہا اسلام میں تو اسراف پسندیدہ نہیں۔ اسے بھی عشق نے جھِڑکا۔ ارے قربانیاں تو ہوتی ہی وہاں ہیں جہاں محبت ہو جہاں عشق ہو۔

عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں۔
عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں۔
عقل پوچھتی تو ہو گی یوں تو جان امانت ہے اور جہاد کے لیے بے خطر میدانِ جنگ میں کود پڑو؟ دسمبر کی یخ بستہ رات میں عشاء کے وضو کے لیے مجھے تو عشق لایا تھا تمہیں عقل لائی ہو گی۔ نماز دین نہیں؟ جہاد دین نہیں؟ کون سی عقل کہتی ہے 313 کا لشکر لے کر ہزاروں لوگوں کے مقابل آ کھڑے ہو؟ کون سی عقل کہتی ہے فرعون جیسی طاقت سے بغاوت کر کے موسی کے ساتھ بھاگ نکلو؟ کون سی عقل کہتی ہے نوح کے ساتھ اونچے پہاڑ ہونے کے باوجود سالوں کشتی بناؤ؟

یہ سب قرآں کی باتیں ہیں۔ اُٹھاؤ اعتراض۔ عشق کی داستانیں رقم کیے بغیر اسلامی تاریخ ادھوری ہے۔ یہ کچھ بھی نہیں۔ کربلا، احد، احزاب، فتح مکہ، شعب ابی طالب، ابراہیم، اسمائیل، حاجرہ، مکہ، حجاز کے میدان عشق کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ کون کہتا ہے عشق کا دین میں کام نہیں؟ عشق کا غامدیت میں کوئی کام نہیں، فلاسفی میں کوئی کام نہیں۔ عشق کا اسلام میں گہرا کام ہے۔

”چاہ عشق دی صابر کولوں اتنا صبر کرایا
تن وچ کیڑے پے گئے تاں وی چاہ اچ فرق نہ آیا ”
عقل کہتی ہے جل جائے گا، گھر والوں کا کیا ہو گا۔ عشق کہتا ہے مولا جو تیری مرضی۔ فرشتے نے پوچھا بچا لوں؟ اگر تم سے سوال کرنا ہے تو نہیں اور اگر مولا سے کرنا ہے تو سوال سے زیادہ وہ میرے حال کو جانتا ہے۔ سو عشق کے سوچنے کے طریقے ہی اور ہوتے ہیں۔ عقل کا پیکر فرشتے کی سنتا، کہتا ٹھیک ہے تاکہ مشرکوں کو حق پتا لگے یہی وقت ہے حق دکھانے کا۔ پیکرِ عشق تھا، آگ میں کھڑا رہا۔ عاشق کی ہتک ہے جبریل سے سوال کرنا اور اُس سے کیسا سوال کرنا جسے حال معلوم بھی ہے۔ عقل جان بچاتی ہے، عشق دیتا ہے۔ دین میں عقل کی مداخلت کا انکاری کون ہے مگر دین میں عشق کی مداخلت کا انکاری عقل سے پیدل ہے۔

ضرورت نہ عشق کو عقل کے تابع کرنے کی ہے نہ عقل کو عشق کے تابع کرنے کی ہے۔ بس کہیں عشق بازی لے جاتا ہے کہیں عقل۔ جہاں قربانی چاہیے وہاں عشق لازمی ہے۔ کبھی عشق و عقل دونوں نے مل کے سنہری واقعات رقم کیے۔

کہیں : عقل ہے تیری سِپَر، عشق ہے شمشیر تری
کہیں : عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
صاحبو عشق کو علی اور عقل کو معاویہ سمجھ کر دیوبند اور شیعان حضرات کیطرح اپنے اپنے پاسے کھینچنا چھوڑو، بے طرح کے حمایتی نہ بنو۔ بریلویت میں رہ کر دونوں کو محترم گُماں کرو، دونوں کے بغیر اسلام ادھورا ہے۔ اگر عشق نے ابنِ عربی کیے تو عقل نے بھی سرسید کیے۔ موقع کی مناسبت تکنی ہے اور ضرورت عقل و عشق دونوں کی ہے۔ پیکرِ فقط عشق کا بھی دیں میں گزارا نہیں اور پیکرِ فقط عقل بھی دین میں گوارا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments