اسوان بند کی ٹیکنالوجی میں گناہوں کا تمام بوجھ دھل گیا


دریائے نیل کا پانی رواں دواں ہے اس پر کروز اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کروز اس وقت ملکی اور غیر ملکی سیاحوں سے لدا ہوا ہے باہر اندھیرا ہے کروز اندر سے بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ سٹیج پر آسمانوں سے اتری اپسراوں کی مانند بیلے ڈانسر اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ موسیقی کی دھنوں کے ساتھ ساتھ اس کے رقص کے زاویے بھی بدل رہے ہیں وہ کبھی سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہے اور کبھی ہال میں بیٹھے لوگوں کے درمیان موجود ہوتی ہے میں بیٹھا متواتر سوچ رہا ہوں کہ ایک وقت وہ تھا جب دریائے نیل انسانوں کی قربانی مانگتا تھا اس کی قربان گاہ پر انسانوں کا بلیدان ہوتا تھا اور آج اسی نیل پر عیش و طرب کی محفلیں برپا ہیں۔ لوگ ابھی ڈانسر کے سحر سے نکلے نہیں تھے کہ اچانک موسیقی کی دھنیں بند ہو گئیں اور ڈانسر واپس سٹیج پر چلی گئی۔

دبی دبی زبان میں عجیب باتیں ہونے لگیں ماحول اجنبی، زبان اجنبی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا لیکن اب محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی خطرناک بات ہونے والی ہے۔ لوگ اٹھ کر باہر کروز کی ریلنگ پر جمع ہونے لگے آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد ایک دلہن کو سجا کر قربانی کے لئے دریائے نیل کے سپردکرنا ہے۔ صدیوں سے دریائے نیل کی بپھری موجیں ایک خوبصورت دلہن کی قربانی مانگتی آئی ہیں۔ خواہش پوری نہ کرنے پر نیل اتنا بپھر جاتا کہ کناروں سے نکل کر ان کے کھیت تباہ کر دیتا اور ان کی آبادیاں ویران کر دیتا یا پھر اپنا بہاؤ اتنا کم کر دیتا کہ پانی کی قلت سے کاشتکاری نہ ہونے سے تمام علاقے قحط کا شکار ہو جاتے۔

انسان کتنا مجبور محض تھا اور ہے کہ وہ نہ صرف مظاہرات فطرت کی سنگینی سے تباہی و بربادی کا سامنا کرتا ہے بلکہ مذہبی پیشوا اسے مزید اپنی ذہنی غلامی کی ناروا پابندیوں میں جکڑ لیتے ہیں اس طرح کہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کے لئیہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اتنے میں اوپر کے عرشے پر دلہن کو لایا گیا جو سفید براق لباس میں ملبوس تھی اور تھوڑی دیر بعد اس کو نیل کی موجوں کے سپرد کر دیا گیا۔ چھپاک کی آواز آئی ماحول تالیوں سے گونج اٹھا، روشنیاں جلا دی گئیں معلوم ہوا کی صدیوں کی روایت کے مطابق آج جیتی جاگتی دلہن کی بجائے دلہن کی ڈمی اتاری گئی ہے۔

دریائے نیل ہمیشہ اس طور نہیں بہتا تھا کہ لوگ کشتیوں اور بجروں پر سوار اس کی باگیں تھا مے اپنے پیاروں کے ساتھ تفریح کے لئے نکلتے ہوں نیل تو صدیوں ان کے لئے ایک خوفناک خواب تھا جب یہ بپھرتا تو ان کی فصلیں تباہ کر دیتا اور ان کی آبادیا ں اجاڑ کر رکھ دیتا اور جب روٹھتا تو اتنا پانی نہ ہوتا کہ وہ فصلیں کاشت کر سکیں اور ساری وادی قحط کا شکار ہو جاتی تھی۔ مذہبی پیشوا کہتے تھے یہ سب تمہارے گناہوں کا نتیجہ ہے بے کس اور لاچار لوگ دیوتاؤں اور اس کے قہر سے لرزتے تھے وہ مندروں میں جاتے تھے۔

مذہبی پیشواؤں کے کہنے پر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے دیوتاؤں سے پرارتھنا کرتے وہ مندروں میں جاتے گڑگڑا کر دعائیں مانگتیاور ہر شرائن میں منتیں مانتے لیکن نیل کی شورش ختم نہ ہوتی وہ کاہنوں کے کہنے پر ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہتے لیکن ان کے دلدر ختم نہ ہوتے۔ ہر سال ان کی طرف سے ایک نوجوان دوشیزہ کو دریاکی لہروں کے حوالے کیا جاتا۔ قیدیوں کو دیوتاؤں کی قربان گاہ پر موت کے گھاٹ اتارا جاتا اور خون کے پیالے بھر بھر کے بتوں کو نہلایا جاتا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان تمام رسومات میں نہ کسی ظل الہی کی قربانی ہوتی اور نہ کسی مذہبی پیشوا کی۔ قربانی ہمیشہ کسی بے کس اور بے نوا شخص کی ہی ہوتی۔

نیل بہتا رہا کئی تہذیبیں آئیں کئی نیست و نابود ہوئیں۔ حضرت عمر بن عاص نے مصر فتح کیا لوگوں نے دوشیزہ کی قربانی دینا چاہی تو ان کو روک لیا گیا۔ اس کی جگہ خلیفہ وقت جناب عمر بن خطاب کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا جس میں انہوں نے لکھا کہ تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم اپنی رفتار کو لوگوں کے لئے تکلیف دہ نہ بناؤ۔ انسانی قربانی کا سلسلہ تو بند ہو گیا لیکن نیل اپنی موج میں بہتا رہا۔

بیسویں صدی کے مشہور ڈرامہ نویس جارج برنارڈ شانے Man and Superman لکھا جس میں ایک ڈرائیور کا کردار ہے جو جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کا ماہر ہے اور جو دراصل نئی سوچ اور انسانی ترقی کا استعارہ ہے جو دقیانوس سوچ سے ہٹ کر تحریک احیائے علوم اور صنعتی انقلاب کی نئی راہوں کا تسلسل ہے لیکن مذہبی پیشواؤں نے آپ کو ہمیشہ مسئلے کے فطری حل سے ہٹا کر گناہوں کی دلدل مین دھکیل دینا ہے اور آپ کجھ کرنے کی بجائے احساس گناہ کا شکار بنے رہتے ہین اس کا کام سائنسی فکر اور سائنسی علوم کو ناکام قرار دے کر آپ کو اپنی دقیانوسی سوچ کا غلام بنائے رکھنا ہے حالانکہ سائنس فیل نہیں ہوتی اسے نئے مسائل کے لئے کچھ وقت لینا ہوتا ہے لیکن یہ سائنسی علوم ہی ہیں جنہوں نے آخرکار اپ کی زندگی کے مسائل حل کرنے ہیں

اور جب مصری قوم میں یہ احساس اجاگر ہوا اور اس میں یہ نئی سوچ پیدا ہوئی کہ اسے سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ہے تو انہوں نے دیوتاؤں کی وادی اور مذہبی سپیڈ بریکرز کو خیر باد کہ کر نیل پر اسوان ڈیم بنا دیا تو ان کے سارے مسئلے حل ہو گئے نہ پھر انسانی جان کی قربانی دینی پڑی نہ کسی دوسرے خط کا انتظار کرنا پڑا ڈیم سے نہریں نکالی گئیں بہت بڑی جھیل تیار کی گئی تو لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آ گیا نہروں اور جھیل سے کھیتیاں سیراب ہونے لگیں، شہروں کو پانی ملنے لگا، بجلی پیدا ہونا شروع ہو گئی اور انڈسٹری کاقیام عمل میں آ گیا اور جو نیل کا اژدہا تھا سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے آج سامری جادوگر کی بے کار رسی بن چکا ہے۔

فرعونوں کی وادی دیوتاؤں کے مندر اور مورتیاں جن سے وہ تھر تھر کانپتے تھے آج ان کے لئے عبرت کا سامان ہیں۔ آج ان کے پاس سپیڈبوٹس ہیں، واٹر ٹیکسی ہیں، کروز ہیں اور وہ ہر شام ان میں بیٹھ کر نیل کا سینہ چیرتے ہوئے موسیقی اور روشنیوں کے رنگ و نور میں تفریح کے لئے نکلتے ہیں۔ اور ان کے پرکھوں کے تمام گناہ اسوان بند ٹیکنالوجی میں بہہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments